- فتوی نمبر: 18-197
- تاریخ: 22 مئی 2024
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب زید سات مہینے کے لئے بیرون ملک تبلیغ میں جارہا ہے لیکن زید کے جانے سے ان کے گھر والوں کے واجب نفقہ پر اثر پڑتا ہے تو زید کو ایک مفتی صاحب نے کہا کہ آپ کا اس طرح اہل وعیال کے واجب نان و نفقہ کا بندوبست کیے بغیر جانا درست نہیں اور اگر آپ چلے گئے تو آپ کا یہ تبلیغی سفر گناہ میں شمار ہوگا۔زید نے جواب میں کہا کہ مفتی صاحب یہ توکل ہے اور اس طرح کا توکل کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خیرالقرون کے زمانے سے ثابت ہے مثلا ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانا اور گھر میں کچھ نہ چھوڑنا اور تبوک کے موقع پر تیس ہزار کے مجمع کا اللہ کے راستے میں جانا اور پکی پکائی کھجوروں کا چھوڑنا ان کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات کتب سیرت میں ملتے ہیں۔ مفتی صاحب اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا یہ توکل کے مفہوم میں آتا ہے ؟
ان واقعات سے تبلیغ میں نکلنے پر استدلال درست ہے ؟کیا مفتی صاحب کا یہ کہنا کہ ”آپ کا یہ سفر گناہ کا سفر ہوگا” درست ہے ؟
تحقیقی جواب دے کر بندے کی الجھن کو دور فرمائیں نوازش ہوگی۔
وضاحت مطلوب ہے:جو شخص سات ماہ کے لئے جانا چاہ رہا ہے وہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے پورے حالات لکھ کر بھیجے۔
جواب وضاحت:بندہ ایک ادارے میں ملازم ہے ان کی تنخواہ سترہ ہزار روپے ہے۔ایک بیوی اور تین بچے ہیں لیکن اگر یہ تبلیغ میں جائے گا تو اس کی تنخواہ بند ہو جائے گی اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔
وضاحت مطلوب ہے:سائل کا سوال سے کیا تعلق ہے؟نیز جس کا یہ اصل مسئلہ ہے وہ اپنا رابطہ نمبر لکھے۔
جواب وضاحت:
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جن افراد کا نان نفقہ آدمی کے ذمہ ہو ان کے نان نفقہ کا انتظام کیے بغیر تبلیغی جماعت میں جانا جائز نہیں البتہ اگر گھر والے بھی صبر وشکر پر پورے طور پر تیار ہوں اور وہ عاقل بالغ بھی ہوں یا کوئی اور عزیز و اقارب میں سے ان کے نان نفقہ کی ذمہ داری اٹھانے کو بخوشی تیار ہو تو پھر انتظام کیے بغیر جانا بھی جائز ہے ۔اور خیر القرون کے جو واقعات ذکر کیے گئے ہیں وہ ایسے ہی ہیں کہ وہ حضرات عاقل بالغ بھی تھے اور مشقت آنے پر صبر و شکر بھی پورے طور پر کرنے والے تھے لہذا ان واقعات سے عام آدمی کا استدلال کرنا درست نہیں۔
الفتاوى الهندية (1/568) میں ہے:
تجب على الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمية والفقيرة والغنية دخل بها أو لم يدخل كبيرة كانت المرأة أو صغيرة يجامع مثلها كذا في فتاوى قاضي خان سواء كانت حرة أو مكاتبة كذا في الجوهرة النيرة
الفتاوى الهندية (1/ 560) میں ہے:
نفقة الأولاد نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة
تنويرالابصار مع الدر (5/345) میں ہے:
(وتجب )النفقة بانواعها على الحر (لطفله) يعم الانثى والجمع (الفقير) الحر فان نفقة المملوك على مالكه والغني في ماله الحاضر ……….(وكذا ) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كانثى مطلقا ،وزمن ومن يلحقه العار بالتكسب ،وطالب علم لا يتفرغ لذلك كذا في الزيلعي والعيني
© Copyright 2024, All Rights Reserved