• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

اہل تشیع، بریلوی اور قادیانیوں وغیرہ کے پوسٹر اور بینر پڑنٹ کرنے کا حکم

استفتاء

محترم مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے۔

ہمارا کام پرنٹنگ کا ہے، مختلف طرح کے بینر اور پوسٹر وغیرہ ہم پرنٹ کرتے ہیں، اس سلسلے میں کچھ کام ایسے کرنے پڑتے ہیں جن کے بارے میں رہنمائی مطلوب ہے۔

1۔ بعض پوسٹروں میں تصویریں ہوتی ہیں مثلاً الیکشن کے دنوں میں۔

2۔ بعض دفعہ اہل تشیع اور بریلویوں کا مواد ہوتا ہے مثلاً ’’یا علی‘‘،’’یا رسول اللہ‘‘ وغیرہ۔

3۔ کبھی قادیانیوں کی پروڈکٹس کی تشہیر ہوتی ہے۔

ان صورتوں میں بعض دفعہ تو ڈیزائن وغیرہ انہی کا ہوتا ہے ہم صرف اس کا پرنٹ نکالتے ہیں، اور بعض دفعہ اشتہار بنانا اور اس میں ڈیزائن، تصویریں بھی ہمیں خود لگانی پڑتی ہیں۔ اپنے کام میں سے یہ اشیاء نکال دیں تو ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ کیا یہ کام کرنے ہمارے لیے جائز ہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ جس صورت میں تصویر آپ کو خود بنانی پڑے یا اس کا پرنٹ نکالنا پڑے بہر صورت ناجائز ہے۔ البتہ پرنٹ نکالنے کی صورت میں اگر تصویر ضمنا ہو مثلاً کسی تعلیمی کتاب کا پرنٹ نکالنا ہو جس میں تصویر بھی ہویا مثلاً شناختی کارڈ کا پرنٹ نکالنا ہو تو اس صورت میں پرنٹ نکالنا جائز ہےکیونکہ اس صورت میں تصویر کا پرنٹ مقصود نہیں۔

تصویر والے پوسٹروں میں عموماً تصویر مقصود ہوتی ہے اس لیے ایسے پوسٹروں کا نہ ڈیزائن کرنا جائز ہے اور نہ  ہی ان کا پرنٹ نکالنا جائز ہے۔ خواہ یہ پوسٹر الیکشن کے سلسلے میں ہوں یا اس کے علاوہ ہوں۔

2۔ کسی دوسرے فرقہ والے کے کام کا ایسا مواد جو دینی حوالے سے ناجائز ہو اس کو نہ خود ڈیزائن کریں اور نہ ہی اس کا پرنٹ نکالیں۔ اور ان کا جو کام دنیوی لائن کا ہو اس کو ڈیزائن بھی کر سکتے ہیں اور اس کا پرنٹ بھی نکال سکتے ہیں۔

3۔ قادیانیوں کا کوئی کام نہ تو ڈیزائن کریں اور نہ ہی اس کا پرنٹ نکالیں۔ ([1])۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

[1]۔        3 نمبر والے جواب سے متعلق ڈاکٹر صاحب دامت برکاتہم کا نوٹ

اس کا مفتی شعیب صاحب سے مذاکرہ کریں۔

مفتی شعیب صاحب کا نوٹ:

قادیانیوں سے معاملات کی بابت تاحال بندہ کی تحقیق یہ ہے کہ:

ان کے ساتھ ہر ایسا تعلق یا معاملہ جو مسلمان کے دین کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہو، وہ ناجائز ہے۔ چنانچہ معاشرتی اختلاط کی تمام صورتیں ممنوع ہوں گی جیسے دوستی، میل جول، پڑوس کے تعلقات، ان کی تقریبات میں جانا اور انہیں اپنے ہاں بلانا وغیرہ۔

اسی طرح معاملات میں سے بھی ایسے معاملات جن میں مستقل تعلق قائم ہوتا ہے جیسے شراکت اور ملازمت کا تعلق یہ بھی ممنوع ہوں گے۔

باقی رہے وہ خالص اور سادہ معاملات جن میں مذکورہ بالا قسم کے اختلاط کی نوبت نہیں آتی جیسے دکان سے کوئی چیز خریدنا یا بیچنا یا اس کی کسی سروس سے فائدہ اٹھانا یا اسے بالعوض خدمت فراہم کرنا، ان امور کی ممانعت کی کوئی شرعی وجہ نہیں ہے اس لیے ان کی فی نفسہ گنجائش ہے۔

نوٹ: یہ رائے حضرت ڈاکٹر صاحب کے سامنے بھی کچھ تفصیل کے ساتھ پیش کی تھی، مفتی صاحب نے اس کا مطالعہ کر کے فرمایا تھا کہ دیگر اہل علم سے بھی اس بارے میں رائے لے لی جائے تاکہ حتمی رائے قائم کرنے میں سہولت رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

یہ مسئلہ اعانت علی المعصیت سے متعلق بھی ہے اور خود معصیت سے متعلق بھی ہے۔

2 نمبر سے اتفاق ہے۔

1 نمبر سے متعلق عرض یہ ہے کہ شناختی کارڈ کی کاپی یا سرکاری دفتر میں جہاں تصویر جمع کروانی لازمی ہوتی ہے کے لیے مجبوری کی وجہ سے تصویر اتروانے کی گنجائش ہے۔ اس لیے تصویر اتروانے والے کی پریشانی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس تصویر اتارنے کا کام جائز خیال ہوتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی طالبعلم کو یونیورسٹی کی طرف سے لازمی حکم ہے کہ تصویری کتاب فوٹو کاپی کروا کر اس میں سے پڑھو تو اس طالبعلم کی پریشانی کے مد نظر گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ایک کتاب جس نے  چھپ کر مارکیٹ میں آنا ہے اور ابھی تک پڑھنے والوں کی کوئی مجبوری اس سے متعلق نہیں بلکہ وہ دکاندار کی خواہش پر چھاپی جا رہی ہے تو مشین مین جو پرنٹ نکال رہا ہے تصویر سازی کی نسبت اس کی طرف ہو گی اس لیے اس کے لیے یہ تصویر سازی جائز نہیں ہے۔ اگرچہ ڈیزائن کسی نے بھی کیا ہو۔ کیونکہ تصویر سازی کی نسبت تو مشین مین کی طرف ہو گی۔

خلاصہ یہ ہے کہ تابع کا قاعدہ مجبوری کی صورت میں چل سکتا ہے عام حالات میں نہیں۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved