• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ايك شخص کی جانب سے سم اور پیسہ وغیرہ ہواور دوسرا شخص لوڈ وغیرہ کرے تو یہ کونسا کاروبار ہوگا؟

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ہذا کے متعلق کہ میں  نےایک آدمی کو لوڈ کے لیے سارا سسٹم بنا کردیدیا  یعنی سم، پیسہ وغیرہ سب میرا ہےاور لوڈ وغیرہ بھی اپنے پیسے سے خود کرکے دیتا ہوں ، لیکن آگے کسٹمر کو لوڈ اور پیکج کرنا میرے شریک کا  کام ہے جو نفع ہوگا اس میں ، میں اور وہ شخص شریک ہوں گے ۔

1.کیا یہ درست ہے؟

  1. اس کو کونسا کاروبار کہیں گے؟

3.نفع میں تو برابر کے شریک ہیں تو کیا نقصان کی صورت میں بھی برابر  کے شریک ہوں گے؟یا سارا نقصان وہی شخص پورا کرے گا؟ یا نقصان میں پورا کروں گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  1. مذکورہ صورت درست ہے۔
  2. یہ کاروبار شرکت کا نہیں ہے بلکہ اجارہ ہے آپ مالک ہیں اوردوسرا شخص آپ کا ملازم ہے ۔ ملازم کی تنخواہ طے کرنے میں دونوں صورتیں ٹھیک ہیں چاہے نفع میں سے خاص مقدار( پانچ فیصد دس فیصد وغیرہ) طے کر لیں یا پھر لگے بندھے پیسے (مثلاً 30،20 ہزار وغیرہ) طے کر لیے جائیں۔
  3. وہ چونکہ آپ کا ملازم ہے شریک نہیں ہے اس لیے نقصان میں آپ کے ساتھ شریک نہ ہوگا ہاں اگر اس کی غلطی سے نقصان ہوا ہو تو اس کا ذمہ دار وہ ہوگا۔

مجمع الانہر(3/547) میں ہے:

والاجير الخاص من يعمل لواحد ويسمى اجير وحد ويستحق الاجر بتسليم نفسه مدته

عالمگیری(9/401) میں ہے:

ومنها (شرائط صحة الاجارة) أن يكون الاجرة معلومة

شرح مجلۃ (2/720) میں ہے:

الاجير الخاص امين حتى انه لا يضمن المال الذى تلف فى يده بغير صنعه وكذا لا يضمن المال الذي تلف بعمله بلا تعد ايضا

فقہی مضامین (388، مؤلفہ: حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحبؒ) میں ہے:

مسئلہ: دکان پر ملازم رکھا اور یہ طے ہوا کہ جو نفع ہوگا اس کا دس فیصد ملازم کو ملے گا تو یہ صحیح ہے اور اگر یوں طے پایا کہ کل آمدنی (Income) کا مثلاً دو فیصد ملازم کو ملے گا تو یہ بھی جائز ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved