- فتوی نمبر: 10-148
- تاریخ: 28 اگست 2017
- عنوانات: عبادات > متفرقات عبادات
استفتاء
السلام علیکم کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ اعمال کا واسطہ اور وسیلہ دینا کیسا ہے؟ اور اعمال کا واسطہ دے کر دعا مانگنا کیسا ہے؟ جیسے غار میں تین آدمیوں کا اعمال کا واسطہ دے کر دعا مانگنے کا قصہ مشہور ہے۔ اور حضور ﷺ کا وسیلہ دینا کہاں تک جائز ہے؟ مدلل اور جامع جواب تحریر فرمایئے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ اعمال کا وسیلہ اور واسطہ دے کر دعا مانگنا جائز ہے جیسا کہ غار میں تین آدمیوں کا اپنے اپنے اعمال کا واسطہ دے کر دعا مانگنا حدیث سے ثابت ہے ۔
صحيح البخاري (1/303، باب من استأجر أجيراً فترك أجره):
عن ابن عمر رضي الله عنهما قال قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «انطلق ثلاثة نفر ممن كان قبلكم، حتى آواهم المبيت إلى غار، فدخلوه، فانحدرت صخرة من الجبل، فسدت عليهم الغار، فقال: إنه لا ينجيكم من هذه الصخرة إلا أن تدعوا الله بصالح أعمالكم، فقال رجل منهم: اللهم كان لي أبوان شيخان كبيران، وكنت لا أغبق قبلهما أهلاً ولا مالاً، فنأىٰ بي طلب شجر يوماً، فلم أرح عليهما حتى ناما، فحلبت لها غبوقهما، فوجدتهما نائمين، فكرهت أن أغبق قبلهما أهلاً أو مالاً، فلبثت والقدح على يدي أنتظر استيقاظهما، حتى برق الفجر-زاد بعض الرواة: والصبية يتضاغون عند قدمي- فاستيقظا، فشربا غبوقهما، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك، ففرج عنا ما نحن فيه من هذه الصخرة، فانفرجت شيئاً لا يستطيعون الخروج.
قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: قال الآخر: اللهم كانت لي ابنة عم، كانت أحب الناس إلي، فأردتها على نفسها، وامتنعت مني، حتى ألمت بها سنة من السنين ، فجاءتني، فأعطيتها عشرين ومائة دينار، على أن تخلي بيني وبين نفسها، ففعلت، حتى إذا قدرت عليها، قالت: لا أحل لك أن تفض الخاتم إلا بحقه، فتحرجت من الوقوع عليها، فانصرفت عنها وهي أحب الناس إلي، وتركت الذهب الذي أعطيتها، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه، فانفرجت الصخرة، غير أنهم لا يستطيعون الخروج منها.
قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: وقال الثالث: اللهم استأجرت أجراء، وأعطيتهم أجرهم، غير رجل واحد ترك الذي له وذهب، فثمرت أجره حتى كثرت منه الأموال، فجاءني بعد حين، فقال: يا عبد الله! أد إلي أجري، فقلت: كل ما ترى من أجرك، من الإبل والبقر، والغنم، والرقيق، فقال: يا عبد الله! لا تستهزئ بي، فقلت: إني لا أستهزئ بك، فأخذه كله، فاستاقه، فلم يترك منه شيئاً، اللهم إن كنت فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج عنا ما نحن فيه، فانفرجت الصخرة، فخرجوا يمشون».
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین آدمی جو تم سے پہلی امت میں تھے سفر میں چلے۔ یہاں تک کہ وہ رات کے وقت آرام کے لئے ایک غار میں داخل ہوئے۔ اتنے میں پہاڑ پر سے ایک چٹان نیچے لڑھک کر آئی اور اس نے غار کا منہ بند کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ اس چٹان سے تمہیں کوئی چیز نہیں بچائے گی مگر یہ کہ تم اللہ سے اپنے نیک اعمال کے ذریعے سے دعا کرو۔ ان میں سے ایک نے یوں دعا کی اے اللہ میرے دو بوڑھے والدین تھے میں ان سے پہلے کسی کو دودھ نہ پلاتا تھا نہ بیوی بچوں کو نہ غلاموں کو۔ ایک دن درخت کی تلاش میں میں دور نکل گیا اور جب میں رات کو واپس آیا تو وہ سو چکے تھے مجھے یہ پسند نہ ہوا کہ والدین سے پہلے میں اپنے بیوی بچوں اور غلاموں کو دودھ پلائوں تو میں اپنے ہاتھوں میں پیالہ پکڑے کھڑا رہا اور ان کے جاگنے کا انتظار کرتا رہا ایک روایت میں ہے کہ بچے میرے قدموں پر (بھوک کی وجہ سے) شور کرتے رہے۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی۔ پھر وہ بیدار ہوئے اور انہوں نے اپنا دودھ پیا۔ اے اللہ اگر میں نے یہ عمل تیری رضا کے لئے کیا ہے تو ہم جس مشکل میں ہیں آپ اس سے ہمیں کشادگی عطا فرما دیں۔ چٹان کچھ سرکی لیکن ابھی نکل نہ سکتے تھے۔ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا دوسرے نے دعا کی اے اللہ میری ایک چچا زاد بہن تھی جو لوگوں میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی میں نے اس سے اپنی مراد چاہی لیکن وہ نہ مانی یہاں تک کہ ایک مرتبہ قحط پڑا تو وہ میرے پاس آئی تو میں نے اس کو ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیئے کہ وہ میری مراد کے حصول میں حائل نہ ہو گی حتی کہ جب میں نے اس پر قدرت پا لی تو وہ بولی کہ تمہارے لئے حلال نہیں کہ تم جائز طریقے کے بغیر مہر کو تو ڑو۔ اس پر میں اس سے جماع کرنے سے باز رہا اور اس سے پرے ہٹ گیا حالانکہ وہ لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب تھی اور میں نے جو اس کو سونا دیا تھا وہ اس کے پاس ہی چھوڑ دیا۔ اے اللہ اگر میں نے یہ عمل آپ کی رضا مندی کے لئے کیا تھا تو ہم جس مشکل میں ہیں اس سے ہم کو رہائی عطا فرما۔ وہ چٹان اپنی جگہ سے کچھ اور ہلی لیکن اب بھی وہ اس سے نکل نہ سکتے تھے۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا تیسرے نے یوں دعا کی۔ اے اللہ میں نے چند مزدور اجرت پر رکھے اور ان کو اجرت بھی دیدی البتہ ان میں سے ایک نے اپنا حصہ چھوڑا اور چلا گیا۔ اس کی اجرت کومیں نے (کاروبار میں لگا کر) بڑھایا یہاں تک کہ اس سے بہت سے اموال بن گئے۔ پھر ایک عرصے کے بعد وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے بندے مجھے میری اجرت دیدے میں نے کہا یہ اونٹ گائے بکریاں اور غلام جو تم دیکھ رہے ہو یہ سب تمہاری اجرت ہے اس نے کہا اے اللہ کے بندے میرے ساتھ مذاق نہ کر۔ میں نے جواب دیا کہ میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ اس نے وہ سارا مال لیا اور ہنکا کر لے گیا اور اس میں سے کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اے اللہ اگر میں نے یہ آپ کی رضا مندی کے لئے کیا تھا تو جس مشکل میں ہم ہیں اس سے کشادگی عطا فرما۔ اس پر چٹان ہٹ گئی اور وہ اس غار میں سے نکل کر چلے گئے۔
2۔ آپ ﷺ کا وسیلہ اور واسطہ دے کر دعا مانگنا بھی جائز ہے۔
مشکاة المصابیح (الفصل الثالث، باب جامع الدعوات: 219)
عن عثمان بن حنيف: أن رجلا ضرير البصر أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال ادع الله أن يعافيني، قال: إن شئت دعوت وإن شئت صبرت فهو خير لك، قال فادعه، قال فأمره أن يتوضأ فيحسن وضوءه ويدعو بهذا الدعاء اللهم إني أسألك وأتوجه إليك بنبيك محمد نبي الرحمة، يا نبي الله إني توجهت بك إلى ربي في حاجتي هذه لتقضي لي، اللهم فشفعه في.
ترجمہ: حضرت عثمان بن حنیف سے روایت ہے کہ ایک نابینا شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو عافیت دے آپ نے فرمایا اگرتم چاہو تو میں دعا کر دوں اور اگر تم چاہو تو صبر کر لو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے (کہ تمہیں صبر کی وجہ سے آخرت میں بڑا اجر ملے گا)۔ اس نے عرض کیا کہ دعا ہی کر دیجئے۔ آپ نے اس کو حکم دیا کہ وضو کرے اور اچھی طرح وضو کرے اور دو رکعت پڑھے اور یہ دعا کرے اے اللہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اور آپ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں بوسیلہ محمد ﷺ نبی رحمت کے اے محمد میں آپ کے وسیلہ سے اپنی اس حاجت میں اپنی رب کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ پوری کی جائے اے اللہ ان کی شفاعت میرے حق میں قبول کیجئے۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
سنن الدارمی (رقم الحديث: 93، 1/ 227) دار المغني للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية:
وعن أبي الجوزاء أوس بن عبد الله قال: قحط أهل المدينة قحطا شديدا فشكوا إلى عائشة فقالت : انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم فاجعلوا منه كوى إلى السماء حتى لا يكون بينه وبين السماء سقف ففعلوا فمطروا مطرا حتى نبت العشب وسمنت الإبل حتى تفتقت من الشحم فسمي عام الفتق.
ابو الجوزاء سے روایت ہے کہ مدینہ میں سخت قحط ہوا لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شکایت کی تو انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کی قبر مبارک کو دیکھ کر اس کے مقابل آسمان کی طرف چھت میں ایک سوراخ کر دو تاکہ اس کے اور آسمان کے درمیان حجاب اور چھت نہ رہے چنانچہ ایسا ہی کیا تو بہت زور کی بارش ہوئی حتی کہ خوب گھاس اگی اور اونٹ خوب فربہ ہو گئے اور فربہی کی وجہ سے پھٹے پڑتے تھے اسی وجہ سے اس سال کو عام الفتق یعنی پھٹنے کا سال کہا جاتا ہے۔
جمع الفوائد: (4/ 89) مكتبة ابن كثير، الكويت – دار ابن حزم، بيروت:
عن أبي بكر قال: علمني النبي – صلى الله عليه وسلم – هذا الدعاء قال: «قل اللهم إني أسالك بمحمد نبيك وبإبراهيم خليلك، وبموسى نجيك، وعيسى روحك وكلمتك وبتوراة موسى وإنجيل عيسى وزبور داود وفرقان محمد، وكل وحي أوحيته وقضاء قضيته وأسألك بكل اسم هو لك أنزلته في كتابك أو استأثرت به في غيبك، وأسألك باسمك الطهر الطاهر بالأحد الصمد الوتر وبعظمتك وكبريائك وبنور وجهك، أن ترزقني القرآن والعلم، وأن تخلطه بلحمي ودمي وسمعي وبصري، وتستعمل به جسدي بحولك وقوتك فإنه لا حول ولا قوة إلا بك»۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے مجھے یہ دعا سکھائی ! فرمایا کہو اے اللہ میں آپ کے نبی محمد اور آپ کے خلیل ابراہیم اور آپ کے نجی (سرگوشی کرنے والے) موسیٰ اور آپ کے روح اور کلمہ عیسیٰ علیہم السلام کے واسطے سے اور موسیٰ علیہ السلام کی تورات اور عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل اور دائود علیہ السلام کی زبور اور محمد ﷺ کے فرقان کے واسطے سے اور ہر وحی کے واسطے سے جو آپ نے کی ہو اور ہر فیصلے کے واسطے سے جو آپ نے کیا ہو آپ سے سوال کرتا ہوں …
© Copyright 2024, All Rights Reserved