- فتوی نمبر: 4-124
- تاریخ: 28 جون 2011
- عنوانات: حظر و اباحت > منتقل شدہ فی حظر و اباحت
استفتاء
چند سالوں سے نجی ٹی وی چینلز میں سے بعض اور کیبل آپریٹر حضرات عمومی طور پر انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر بنائی گئی فلموں کی نمائش کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں تو یہ سلسلہ گذشتہ کئی دہائیوں سےجاری ہے مگر ہمارے وطن عزیز میں یہ سلسلہ چند سالوں سے زور پکڑ گیا ہے۔
****نامی فلم جو حضور ﷺ کے مقدس زمانہ کے واقعات پر مشتمل ہے۔ اس فلم کی نمائش ” جیو” چینل پر ہر سال کی جاتی ہے۔ صرف نبی پاک ﷺ کی ذات اطہر کو چھوڑ کر اس فلم میں تقریبا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کےنام سے کرداروں کو پیش کیا ہے۔ 313 بدری صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی بدر کی جنگ میں دکھائےگئے ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ناموں پر کردار عیسائی اداکاروں نے ادا کیے ہیں۔
آج کل ” پیغام پروڈکشن” نامی ادارے نے انبیاء علیہم السلام کی زندگی پر فلمائی گئی فلموں کا اردو میں ترجمہ کر کے پھیلانا شروع کر رکھا ہے۔ ان فلموں میں حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام کے فرضی کردار پیش کیے گئے ہیں۔ ان فلموں میں کئی مقامات پر نبی کا فرضی کردار کرنے والا نبی ، اے یوسف، اے ابراہیم، اے پیغمبر کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ فرضی کردار بھی کئی مقامات پر اپنے ڈائیلاگ سے خود کو اللہ کا پیغمبر کہتے ہیں۔ مثلا حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں یہ دکھایا گیا کہ اس دور میں شیاطین ، انسانوں پر جنگ کا اعلان کر دیتے ہیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے نام سے کردار کرنے والے کا ایک جملہ ( جب وہ ایک عورت کے پاس بیٹھا ہے) یہاں نقل کرتا ہوں:
” ہر پیغمبر کی ایک میراث ہوتی ہے اور میری میراث شاید ان سے ( یعنی سرکش شیاطین سے ) جنگ ہے”۔
میوزک کی دھنیں تو ان تمام فلموں میں متواتر استعمال کی گئی ہیں۔ اور ان فلموں میں انبیاء کے ناموں سے جن اداکاروں کو دکھایا گیا ہے ان کو بار بار اس طرح پکارا جاتا ہے جیسے کسی عام آدمی کو پکارا جاتاہے، مثلا نجاشی کے دربار میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نام سے جس شخص نے کردار ادا کیا ہے وہ کہتا ہے:
” ہم وہ کرتے ہیں جو محمد ہمیں کہتے ہیں ۔۔۔۔۔محمد نے ہمیں بتایا کہ ایک اللہ کی عبادت کرو۔”
ایسی ہی کئی مثالیں ان فلموں میں حد سے زیادہ موجود ہیں۔
آپ سے مندرجہ ذیل سوالات شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب طلب ہیں:
۱۔ ان فلموں کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟ کیا یہ جائز ہیں یا گناہ ہیں یا ایسی فلموں کو بنانے والے یا انکا کسی بھی زبان میں ترجمہ کرنے والے اسلام کے مجرم ہیں اور شریعت ان پر تعزیر کرتی ہے یا کوئی گرفت کرتی ہے؟ یا ایسے لوگوں کو صرف توبہ کرنی چاہیے؟ یا ایسے لوگوں کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لینی چاہیے؟
۲۔ کسی بھی شخص کو چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو فرضی طور پر نبی یا صحابی بنانا اور پھر دیگر فلموں کے کرداروں کی طرح اس شخص سے صحابی کے طور پر ایکٹنگ کروانے کے فعل کی شریعت میں کیا حیثیت ہے؟
۳۔ وہ شخص جو اس فلم میں بار بار خود کو نبی یا صحابی کہہ رہا ہے اس کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
۴۔ وہ مسلمان یا مسلمانوں کے ادارے جوان فلموں کی نمائش کر رہے ہیں یا ان کو دیکھ رہے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟
۵۔ان فلموں کا کاروبار، لین دین کسی بھی درجہ میں کیسا ہے؟
۶۔ کیا حکومت وقت کو ایسی فلموں پر پابندی لگانی چاہیے؟
نوٹ: خاص طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ویڈیو کے بارے میں تفصیل بتائیں۔
الجواب
1۔ یہ ناجائز ااور حرام ہیں کیونکہ یہ جاندار کی تصویر ہے جو کہ بنانا حرام ہے۔
2،3۔ فاسق و فاجر ہے بلکہ کسی نبی کا کردار ادا کرنا تو نبی کے ساتھ کھیل کرنا ہے اور کفر کا اندیشہ ہے۔
5،4۔ حرام ہے۔
6۔ بالکل لگانی چاہیے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved