• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اپنی نماز پڑھنے کے دوران جماعت کھڑی ہوگئی

استفتاء

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بعض دفعہ مسجد میں جانا  ہوتا ہے اور ہم اپنی نماز شروع کر دیں تو اس صورت  میں اگر جماعت کھڑی ہو جائے تو کیا ہم اپنی نماز پڑھتے رہیں یا نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائیں؟ اگر فرض نماز شروع کریں تو پھر کیا حکم ہے اور اگر سنت موکدہ شروع کریں تو پھر کیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر فرض نماز دو رکعت والی ہے جیسے فجر تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر فرض نماز کی پہلی  رکعت شروع کی اور اس رکعت کو سجدہ کے ساتھ نہیں ملا یا تو نماز کو توڑ دے اور جماعت کے ساتھ شریک   ہو جائے اور اگر دوسری رکعت ہے اور اس کو سجدہ کے ساتھ نہیں ملایا تب بھی نماز توڑ دے اور جماعت میں شریک ہو جائے اور اگر سجدہ  کر لیا ہے تو تشہد وغیرہ پڑھ کر دو رکعت نماز مکمل کرے اور اگر فرض نماز تین رکعت والی  ہے جیسے مغرب تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر دوسری رکعت کو سجدہ  کے ساتھ نہیں ملایا تو نماز  کو توڑ  دے اور اگر سجدہ کے ساتھ ملا دیا  ہے تو پھر تین رکعت نماز مکمل کرے اور اگر وہ فرض نماز چار رکعت والی ہے جیسے ظہر، عصر، عشاء تو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر پہلی رکعت ہے اور پہلی  رکعت کو سجدہ کے ساتھ نہیں ملایا تو نماز کو توڑ دے اور جماعت کے ساتھ شریک  ہوجائے اور اگر دوسری رکعت  ہے تو پھر دوسری رکعت پر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دے اور اگر تیسری رکعت  ہے تو اس صورت میں اگر تیسری رکعت کو سجدہ کے ساتھ نہیں ملایا تب بھی نماز توڑ کر جماعت میں شریک  ہو جائے اور اگر تیسری رکعت کا سجدہ کرلیا ہے تو پھر چار رکعت پڑھ کر نماز مکمل کرلے اور جس صورت میں نماز مکمل کر لی جائے اس صورت میں ظہر اور عشاء میں تو نفل کی نیت سے جماعت میں شریک ہوجائے اور فجر، عصر اور مغرب میں جماعت کے ساتھ شریک نہ ہو ۔

اور اگر نماز سنت موکدہ ہے جیسے ظہر اور جمعہ کی سنتیں  شروع کیں اور فرض نماز کی جماعت کھڑی ہو جائے تو ظاہر مذہب یہ ہے کہ دو رکعت پر سلام پھیر دے اور بہت سارے فقہاء کا مذہب  یہ ہے کہ چار رکعت مکمل  کرے۔ لیکن اگر تیسری رکعت شروع کردی تو پھر چار رکعت مکمل کرنا ہی ضروری ہے۔

شرع فيها أداء منفردا ثم أقيمت يقطعها لعذر إحرازاً لجماعة قائماً بتسليمة واحدة هو الاصح ويقتدي بالإمام وهذا إن لم يقيد الركعة الأولى بسجدة أو قيدها بها في غير رباعية أو  فيها ولكن ضم إليها ركعة أخرى وجوباً وإن صلى ثلاثاً منها أي  الرباعية أتم منفرداً ثم يقتدي بالإمام متنفلاً ويدرك بذلك فضيلة الجماعة: حاوي. إلا في العصر فلا يقتدي لكراهة  النفل بعده وكذا سنة الظهر وسنة الجمعة إذا أقيمت أو خطب الإمام يتمها أربعاً على القول الراجح لأنها صلاة واحدة وليس القطع للإكمال بل للإبطال خلافاً لما رجحه الكمال قال الشامي قوله خلافاً لما رجح الكمال : حيث قال وقيل يقطع على رأس الركعتين و هو الراجح لأنه يتمكن من قضائها بعد الفرض. أقول وظاهر الرواية اختياره وعليه مشى في الملتقى و نور الإيضاح والمواهب … الدرر و الفيض وعزره في الشرنبلالية إلى البرهان … قال في البحر والظاهر ما صحح المشائخ …. أقول لكن تقدم في باب النوافل أنه يقضي ركعتين لو نوى أربعاً و أفسده و أنه ظاهر الرواية عن أصحابنا وعليه المتون و أنه صحح في الخلاصة رجوع أبي يوسف رحمه  الله  إليه وصرح في  البحر أنه يشمل السنة المؤكة كسنة الفجر.( شامی، 612/ 2 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved