• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

آرمی کی طرف سے ملے ہوئے پلاٹ پر زکوٰۃ کا حکم

استفتاء

ہمیں آرمی کی طرف سے پلاٹ ملا ہے کچھ قیمت جو بقایہ تھی قسطوں میں ادا کی گئی ہمارا شروع سے ارادہ اسے بیچنے کا تھا آیا کہ اس پر زکوٰۃ لاگو ہوتی ہے یا نہیں؟ قسطیں مکمل ہوئے تین سال  ہوگئے ہیں اگر زکوٰۃ لگتی ہے تو زکوٰۃ قسطیں مکمل ہونے کے بعد کی ادا کی جائے گی؟

وضاحت: آرمی کی طرف سے یہ طے ہے کہ جو پلاٹ وہ دیتے ہیں تو وہ آدھے پیسے ادا کر دیتے ہیں اور آدھے پیسے اس نے قسطوں میں ادا کرنے ہوتے ہیں جس کو پلاٹ مل رہا ہے۔ اور آرمی والے پلاٹ پر قبضہ بھی دیدیتے ہیں یعنی کہ  قسطیں مکمل ہونے سے پہلے اگر ہم وہاں پر کوئی تعمیر کرنا چاہیں تو تعمیر بھی کر سکتے ہیں ۔اور میرا سوال اس سے متعلق ہے کہ جب قسطیں چل رہی ہوں اس وقت زکوٰۃ لازم ہوگی یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ پلاٹ پر قبضہ ملنے کے بعد زکوٰۃ آئے گی خواہ ابھی قسطیں پوری ہوئی ہوں یا نہ ہوئی ہوں ، البتہ زکوٰۃ دیتے وقت جو قسطیں باقی ہیں انہیں منہا کر کے باقی قیمت پر زکوٰۃ آئے گی ۔اور قسطیں مکمل ہونے کے بعد کل قیمت پر زکوٰۃ آئے گی ۔

نوٹ:جو قسطیں باقی ہیں انہیں منہا کرنے میں مزید احتیاط یہ ہے کہ اگر قسطیں ماہانہ ہوں یا سالانہ ہوں تو صرف ایک ماہ یا ایک سال کی قسط منہا کی جائے۔

تنویر الابصار مع درالمختار (208/3) میں ہے:

( وسببه ) أي سبب افتراضها(الزكاة:از ناقل) ( ملك نصاب حولي )… ( تام )… (فلا زكاة على مكاتب)… ولا فيما اشتراه لتجارة قبل قبضه.

حاشیۃ ابن عابدین (215/3) میں ہے:

قوله ( قبل قبضه ) أما بعده فيزكيه عما مضى كما فهمه في البحر من عبارة المحيط فراجعه لكن في الخانية رجل له سائمة اشتراها رجل للسيامة ولم يقبضها حتى حال الحول ثم قبضها لا زكاة على المشتري فيما مضى لأنها كانت مضمونة على البائع بالثمن اه ومقتضى التعليل عدم الفرق بين ما اشتراها للسيامة أو للتجارة.

حاشیۃ ابن عابدین (211/3) میں ہے:

(قوله أو مؤجلا إلخ) عزاه في المعراج إلى شرح الطحاوي، وقال: وعن أبي حنيفة لا يمنع. وقال الصدر الشهيد: ‌لا ‌رواية ‌فيه، ولكل من المنع وعدمه وجه. زاد القهستاني عن الجواهر: والصحيح أنه غير مانع.

جدید فقہی مسائل مصنفہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب(144,145/1 ) میں ہے:

سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی طرف سے آج کل ترقیاتی اور صنعتی قرضے فراہم کئے جاتے ہیں، طویل مدت میں ان کی ادائیگی مطلوب ہوتی ہے ان قرضوں کی مقدار تو بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن ہر سال ادا طلب قسط بہت معمولی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے  قرضے پورے کے پورےمنہا کر کے زکوٰۃ واجب ہوگی یا ہر سال کی مطلوبہ قسط ہی منہا کی جائے گی اور باقی پورے مال کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟

فقہاء احناف کے عام اصول کا تقاضا تو یہی ہے کہ ایسی صورت میں پورے قرض کو منہا کیا جائے اس کے بعد جو رقم بچ جائے اس میں زکوٰۃ واجب ہو لیکن ایسے طویل مدتی دیون کو مستثنی کرنے میں فقراء کو اپنے حق سے محروم ہونا پڑتا ہے اور صاحب مال کو ایک ایسے مال کی زکوٰۃ سے چھوٹ مل جاتی ہے جو اس کے تصرف میں ہے اور جس کی ادائیگی میں اسے بہت مہلت حاصل ہے، اس لئے ان حالات میں سب سے متوازن شریعت کی روح و مقصد سے ہم آہنگ اور معتدل رائے یہ ہے کہ ہر سال قرض کی جو قسط ادا کی جانی ہے صرف وہی مقدار زکوٰۃ سے مستثنی ہوگی بقیہ پورے مال میں زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ اس سلسلہ میں فقہاء کے یہاں ایک نظیر بھی موجود ہے کہ دیر سے ادا کیا جانے والا مہر (مہر مؤجل) منہا کئے بغیر پورے مال میں زکوٰۃ واجب ہوگی۔چنانچہ علامہ کاسانی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں:

وقال بعض مشائخنا إن المؤجل لا يمنع لانه غير مطالب عادة.

ترجمہ: ہمارے بعض مشائخ کہتے ہیں کہ ادھار مہر زکوٰۃ کی ادائیگی کیلئے مانع نہیں کیونکہ عام طور سے اس کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے ۔

خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی اس طرح کے اقوال منقول ہیں کہ دین مؤجل یعنی دیر سے قابل ادائیگی قرضے زکوٰۃ واجب ہونے میں مانع نہیں ہیں اور علامہ شامی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved