- فتوی نمبر: 15-41
- تاریخ: 13 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک عورت اپنے دیور اور جیٹھ اور بھابیوں کے ساتھ 28دن کے عمرہ پیکج پر گئی جبکہ ان میں سے کوئی بھی اس کا محرم نہیں ۔اس صورت میں مندرجہ ذیل سوالات عرض ہیں:
۱۔ کیا اس عورت کا اس طرح عمرہ پر جانا جائز ہے؟
۲۔ کیا اس کا عمرہ ہو جائے گا؟
۳۔ کیا وہ اس عمرہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہو گی یا یہ بھی باعث اجر ہو گا؟
وضاحت مطلوب ہے:یہ عورت کون ہیں؟ سائل سے ان کا کیا رشتہ ہے ؟
جواب وضاحت:خاتون میری پھوپھی کی بیٹی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ بغیر محرم کے اس عورت کا عمرہ پر جانا جائز نہیںتھا۔
۲۔ عمرہ بہرحال ہو جائے گا۔
۳۔ بغیر محرم کے سفر کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگی اور عمرے کا ثواب اس کو ملے گا لیکن اس گناہ کے کام کی وجہ سے اس درجے کا ثواب نہ ملے گا جو محرم کے ساتھ جانے کی صورت میں ملتا ۔
حاشية ابن عابدين (2/ 456)
قوله ( كالحج بمال حرام ) كذا في البحر والأولى التمثيل بالحج رياء وسمعة فقد يقال إن الحج نفسه الذي هو زيارة مكان مخصوص الخ ليس حراما بل الحرام هو إنفاق المال الحرام ولا تلازم بينهما كما أن الصلاة في الأرض المغصوبة تقع فرضا وإنما الحرام شغل المكان المغصوب لا من حيث كون الفعل صلاة
لأن الفرض لا يمكن اتصافه بالحرمة وهنا كذلك فإن الحج في نفسه مأمور به وإنما يحرم من حيث الإنفاق وكأنه أطلق عليه الحرمة لأن للمال دخلا فيه فإن الحج عبادة مركبة من عمل البدن والمال كما قدمناه ولذا قال في البحر ويجتهد في تحصيل نفقة حلال فإنه لا يقبل بالنفقة الحرام كما ورد في الحديث مع أنه يسقط عنه معها ولا تنافي بين سقوطه وعدم قبوله فلا يثاب لعدم القبول ولا يعاقب عقاب تارك الحج اه أي لأن عدم الترك يبتني على الصحة وهي الإتيان بالشرائط والأركان والقبول المترتب عليه الثواب يبتني على أشياء كحل المال والإخلاص كما لو صلى مرائيا أو صام واغتاب فإن الفعل صحيح لكنه بلا ثواب والله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved