- فتوی نمبر: 29-24
- تاریخ: 09 اگست 2023
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
(1)2021ء جس سال حکومت کی طرف سے حج پر جانے کی اجازت نہیں تھی ، اسی طرح کوئی حج کے سرکاری خرچہ کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا تو 2021ء کے سال میں حج کی فرضیت کا معیار کیا تھا ؟
(2)دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک عورت کے پاس اپنا اور اپنے محرم کا حج پر جانے کا خرچہ ہو مگر حکومت کی پابندی کی وجہ سے وہ عورت حج پر نہیں جا سکتی ، جیسے کرونا میں تھا تو کیا اس عورت پر حج فرض ہو چکا یا نہیں ؟
(3) اسی طرح اگر صرف اپنا خرچہ ہے اور محرم کا نہیں اور باقی کوئی مانع نہیں تو کیا اس عورت پر حج فرض ہو گا؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
(1)مذکورہ صورت میں جب سے فلائٹیں کھلی تھیں اس وقت آنے جانے اور وہاں رہنے کا جو اندازاً خرچہ بنتا تھا وہ خرچہ 2021ء میں حج کی فرضیت کا معیار تھا۔
(2)مذکورہ صورت میں اس عورت پر حج فرض ہو چکا ہے۔
(3)مذکورہ صورت میں اس عورت پربھی حج فرض ہوگا، تاہم اگر محرم یا شوہر اپنے خرچ پر اس کے ساتھ حج پرجانے کے لیے تیار نہ ہو تو ایسی عورت پر حج کو جانا واجب نہیں، یعنی اس کے ذمے وجوبِ ادا نہ ہوگا تاہم نفسِ وجوب اس کے ذمے ہو گا لہذا اگر حج نہ کرسکی تو اس پر حج کرانے کی وصیت کرنی واجب ہوگی۔
مناسک ملا علی قاری (صفحہ نمبر:57) میں ہے:
(وهل يجب عليها نفقته المحرم أو الزوج ) أي إن امتنع من الخروج معها إلا بأن تنفق عليه (قيل نعم ) أي وجب عليها ذلك إن كان لها غنى ، كما ذكره القدوري ، وقال في السراج الوهاج هو الصحيح ، (وقيل لا ) أي لا يلزمها ولا يجب عليها ما لم يخرج المحرم بنفقته على ما ذكره الطحاوي ، وهو قول أبي حفص البخاري ، وفي منسك ابن امير الحاج وهل يجب عليها نفقة المحرم والقيام براحلته ؟ اختلفوا فيه ، وصححوا عدم الوجوب ، وفي السراج الوهاج التوفيق بين قول من يوجب عليها نفقة المحرم وبين قول من لا يوجب أن المحرم إذا قال : لا أخرج إلا بالنفقة ، وجب عليها النفقة بالإجماع ، وإذا خرج من غير اشتراط ذلك ، لم يجب ، انتهى.
مناسک ملا علی قاری (صفحہ نمبر:57) میں ہے:
(الرابع) أي من شرائط الأداء في خصوص حق النساء (المحرم الأمين) …… ثم اختلفوا أن المحرم أو الزوج شرط الوجوب أو الأداء كما اختلفوا في أمن الطريق فصحح قاضيخان وغيره انه من شرائط الأداء وصحح صاحب البدائع والسروجي انه من شرائط الوجوب وثمرة الخلاف مشهورة، وصنيع المصنف يشعر بأنه من شرائط الأداء على الأرجح.
الجوهرة النيرة (1/ 149) میں ہے:
ويجب عليها نفقة المحرم هو الصحيح لأنها لا تتوصل إلى الحج إلا به كما يلزمها شراء الراحلة التي لا تتوصل إلا بها وفي الخجندي لا يجب عليها ذلك والتوفيق بينهما أن المحرم إذا قال لا أخرج إلا بالنفقة وجب عليها وإن خرج من غير اشتراط ذلك لم يجب عليها.
غنیۃ الناسک (صفحہ نمبر:27) میں ہے:
وتجب عليها النفقة والراحلة لمحرمها ، لأنه محبوس عليها ، فيشترط أن تكون قادرة على نفقتها ونفقته الشاملة للراحلة كذا في الهداية والخانية والدر، قال في الفتح : هذا اذا أبى أن يحج معها الا بالنفقة منها والراحلة فأما اذا حج معها من غير اشتراط ذالك ،فلا تجب.
معلم الحجاج (صفحہ نمبر84,85) میں ہے:
عورت کے حج کرنے کے لیے کسی دیندار محرم یا شوہر کا ہونا بھی شرط ہے اگر کوئی محرم موجود نہ ہو یا ہے لیکن ساتھ جانے کو تیار نہیں اسی طرح شوہر بھی ساتھ جانے کو تیار نہیں تو حج کو جانا واجب نہیں ، اگر حج نہ کرسکی تو وصیت کرنی حج کرانے کی واجب ہوگی۔
مسائل بہشتی زیور (436/1) میں ہے:
مسئلہ:کسی کے پاس حج کا خرچ جمع کرانے کے وقت سے لے کر آخری جہاز جانے تک کسی بھی وقت میں حج کے لائق سرمایہ حاصل ہو جائے تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے اگرچہ حکومتی پابندیوں کی وجہ سے اس سال وہ حج نہ کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved