• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بچے کی پرورش کاحق کس کو ہے؟

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام

بندے کی شادی 24 اپریل 2013 کو ہوئی اور 27 جنوری 2014 کو میرا بیٹا پیدا ہوا اور 26 اگست 2015 کو میری بیوی کو طلاق ہوئی۔ 11 اپریل 2019 کو اس طلاق یافتہ عورت نے ایک دوسری جگہ شادی کرلی ،ہر ماہ بچے کو خرچہ بھی بھیج رہا ہوں اور ہماری ملاقات عدالت میں ہوتی ہے، میں اپنے بچے کو لینا چاہتا ہوں لیکن میری سابقہ بیوی اپنے گھر والوں کے ساتھ بچہ نہ دینے پر بضد ہےاور عدالت بھی میری بات سننے سے قاصر ہے ۔

میری سابقہ بیوی اور اس کے گھر والوں نے میرے بیٹے کے دماغ میں میری اتنی نفرت پیدا کردی ہے کہ جب میں ملاقات کے لیے جاتا ہوں اور اپنے بیٹے سے پوچھتا ہوں کہ آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں ،تومجھ سے  کہتا ہے کہ آپ کا (والد) جنازہ پڑھنے آیا ہوں،ظاہر بات ہے جو ایک حقیقی باپ بچے کی پرورش اور تربیت کرسکتا ہے، وہ ایک سوتیلا باپ نہیں کرسکتا اور میری سابقہ بیوی اپنے دوسرے خاوند کو اپنے بچے کا باپ کہلواتی ہے۔

براہ کرم مجھے ازروئے شرع حوالہ جات کے ساتھ بتا دیں کہ اسلام اس مسئلے پر کیا کہتا ہے آیا کہ میرا بیٹا مجھے ملنا چاہیے ؟ بچے کی موجودہ عمر6سال ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر بیوی کو طلاق ہو جائے تو سات سال تک لڑکا ماں کی پرورش میں رہے گا اور اگر بیوی بچے کے غیر محرم سے نکاح کرلے تو پھر نانی کی پرورش میں رہے گا ،نانی کے بعد پڑنانی کا حق ہوگا، اگر یہ دونوں نہ ہوں یا بچے کو رکھنے پر تیار نہ ہوں تو پھر حق دادی کو ہوگا،اس کے بعد اگر بچے کی بہنیں ہوں تو ان کو اور ان کے بعد خالہ کو پھر پھوپھی کو حق حاصل ہوگا اگر ان میں سے کوئی بھی نہ ہو یا لینے کو تیار نہ ہو تو پھر حق باپ کو ہوگا ،البتہ سات سال کے بعد بہرصورت لڑکا باپ کی تحویل میں دیا جائے گا۔فتاوی عالمگیری(1/541-542)میں ہے:

أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم…… وإن لم يكن له أم تستحق الحضانة بأن كانت غير أهل للحضانة أو متزوجة بغير محرم أو ماتت فأم الأم أولى من كل واحدة وإن علت فإن لم يكن للأم أم فأم الأب أولى ممن سواها وإن علت ……..فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأب وأم فإن ماتت أو تزوجت فالأخت لأم……… واختلفت الروايات في بنات الأخت لأب مع الخالة والصحيح أن الخالة أولى…..وإنما يبطل حق الحضانة لهؤلاء النسوة بالتزوج إذا تزوجن بأجنبي …..وإذا وجب الانتزاع من النساء أو لم يكن للصبي امرأة من أهله يدفع إلى العصبة فيقدم الأب

     2۔والام والجدۃ احق بالغلام حتی یستغنی وقدر بسبع سنین…وقدرہ ابوبکرالرازی بتسع سنین والفتوی علی الاول

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved