• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر

بڑے مارکیٹوں وغیرہ میں بنے ہوئےمصلوں میں باجماعت نماز ادا کرنا

  • فتوی نمبر: 4-20
  • تاریخ: 11 جون 2011

استفتاء

بعض مارکیٹوں میں بڑے بڑے پلازے بنے ہوئے ہیں جن میں دکانیں ہوتی ہیں ن میں عام طور سے ایک یا بعض جگہوں پر دو یا تین مصلے ( یعنی نماز کی جگہ ) بنی ہوئی ہے۔ یعنی  امام کا جائے نماز اور صفیں اور ایک مصلی پر ظہر کی نماز مثلاً 01:15 اور دوسری جگہ 01:30 اور تیسرے پر01:45 پر ہوتی ہے۔ اور بعض مصلے پر کچھ دکاندار مل کر کسی عالم دین کو امام مقرر کر دیتے ہیں اور کسی مصلے پر کوئی بھی مقرر نہیں ہوتا بلکہ حسب موقع کوئی داڑھی والے صاحب اور کبھی مقطوع اللحیہ بھی امام بن جاتے ہیں۔ ان مصلوں پر آس پاس کے دکاندار اور ان کا عملہ حسب موقع باری باری آکر کوئی ایک جماعت اور کوئی دوسرے مصلے کی جماعت میں شریک ہوجاتا ہے۔ ان پلازوں کی بالائی منزل سے نکل کر دور مسجد میں پیدل جانا مشکل بھی ہے اور وقت طلب بھی اور اگر گاڑی سے جانا ممکن ہوتو آ کل سردیوں میں ظہر ، عصر ، مغرب ہر نماز میں گاڑی پارکنگ سے نکال کر جانا بہت مشکل ہے۔

اب ان مصلوں پر جب کہ کبھی امام مقرر کبھی نہیں نماز جماعت سے ادا کرنا اور ان نمازوں سے مستقلاً مسجد کو نہ جاسکنا، اس کی کس حد تک گنجائش ہے اور اذان میں قریب کی مسجدوں کی اذان کافی ہے یا خود اذان دینا ضروری ہے؟

2۔ بعض بڑے سٹوروں پرمثلاً جوتے کے سٹور پر مستقل گاہکوں کی آمد جاری رہتی ہے۔ اس میں نماز کے وقت پندرہ منٹ کے لیے دروازہ بند کردیا جاتا ہے اور سٹور یا دکان کے اندر ہی صفیں بچھا کر نماز باجماعت ادا کی جاتی ہے اور بعض گاہک بھی نماز میں شریک ہوجاتے یں۔ کبھی دو ملازمین ان گاہکوں کی نگرانی کرتے ہیں، جو نماز نہیں ادا کر رہے ہوتے اور اندر سٹور میں موجود ہوتے ہیں اور باجماعت نماز کے بعد پھر اپنی نماز ادا کرتے ہیں اور بعض بڑے سٹور والوں نےان نمازوں کے لیے  ایک عالم دین کو بھی جماعت کروانے کے لیے مقرر کیا ہوا ہے۔

یہ سٹور والے عذر کرتے ہیں کہ ظہر، عصر اور مغرب پر نماز میں دکان  بند کرکےتمام لوگوں کو باہر نکالنا پھر آکر کھولنا کاروباری اعتبار سےبے حد مشکل ہے، بعض اوقات مسجد دور ہوتی ے اور بعض اوقات دکان بند کرتے ہوئے چھوٹے ملازمین سٹاک سے کچھ چوری کر لیتے ہیں۔ رات کو ایک دفعہ نگرانی میں دکان بند کرو  تو ممکن ہے جب کہ ہر نماز میں مشکل  اور جو سٹاک کم ہو وہ دکان کے منیجر کے ذمہ لگتا ہے۔

اس طرح بڑی دکان یا سٹور میں با جماعت نماز کااہتمام کرنا جب کہ کبھی امام مقرر ہو کبھی نہ  اور مستقل مسجد میں جماعت میں حاضر نہ ہوسکنا، اس کی کس حد تک گنجائش ہے نیز کیا قریب مسجد کی اذان کافی ہے؟۔

3۔ بعض بڑی فیکٹریوں نے اپنے احاطے میں چھوٹی مساجد بنائی ہیں لیکن بعض فیکٹریاں با مر مجبوری مسجد نہیں بنا سکتیں ( مثلاً جگہ کرائے کی ہے ) تو وہاں ایک کمرہ یا ہال میں صفیں بچھا کر باقاعدہ امام مقرر کر دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ امام بھی مقرر نہیں ہوتا۔ بعض اوقات دیکھنے سے اس پر مسجد کا ہی گمان ہوتا ہے لیکن وہ باقاعدہ مسجد نہیں ہوتی۔ اب ان فیکٹری کے ملازمین کو ظہر، عصر مغرب ہر نماز کے لیے فیکٹری سے نکل کر آس پاس مساجد میں جانا مشکل ہوتا ہے اور کبھی مسجد ہوتی بھی بہت دور ہے پیدل جانے میں کافی وقت لگتا ہے۔ اسی طرح بعض چھوٹے ہسپتال میں بھی ایک کمرہ میں صفیں بچھا کر نماز کے لیے مختص ہوتا ہے جس میں مریض اور ڈاکٹر آکر باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔

اس طرح کسی فیکٹری یا ادارے میں ایک کمرا یا ہال نماز کے لیے مختص کرنا اور با جماعت نماز ادا کرنا باقاعدہ مسجد میں جماعت کے لیے نہ جا سکنا اس کی کسی حد تک شرعاً گنجائش ہے ۔ اسی طرح مسجد سے کس حد تک دوری  مسجد کی جماعت میں شرکت سے شرعاً عذر سمجھی جاتی ہے؟۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ مسجد شرعی کی جماعت کو چھوڑ کر دوسری جگہ بلا عذر جماعت کروانا اگرچہ اصح قول کے مطابق بلاکراہت درست ہے لیکن ایک تو فضیلت پھر بھی مسجد شرعی کی جماعت کو ہے اور دوسرے بعض فقہاء کے نزدیک یہ مکروہ اور بدعت ہے، اس لیے جس جگہ جو لوگ مسجدشرعی میں جاکر نماز باجماعت ادا کرسکتے ہوں تو وہ اس کی پوری کوشش کریں۔

اور جس جگہ جن لوگوں کو مسجد شرعی میں جاکر نماز باجماعت پڑھنے میں کوئی عذر ہو یا آنے جانے میں کوئی حرج ہو مثلاً ا ہل حق کی مسجد بہت دور ہو یا ملازمین کے ادھر ادھر گھوم کر آجانے اور مسجد میں جا کر نماز نہ پڑھنے کا اندیشہ ہو تو وہ لوگ مذکورہ مصلوں میں بھی نماز باجماعت ادا کر سکتے ہیں۔فتاویٰ شامی میں ہے:

لا يقال يمكنه أن يجمع بأهله في بيته … لأن نقول أن مذهب الإمام الحلواني أنه بذلك لا ينال ثواب الجماعة و أنه يكون بدعة و مكروها بلا عذر … و سيأتي في الإمامة أن الأصح أنه لو جمع بأهله لا يكره و ينال فضيلة الجماعة لكن فضيلة جماعة  المسجد أفضل. (2/ 81 دارالمعرفه)

( و في الإمامة من الشاامية ) و اختلف العلماء في إقامتها في البيت و الأصح أنها كإقامتها في المسجد إلا ي الأفضلية. (2/ 345 دارالمعرفه )

  1. اگرچہ محلہ کی اذان کافی ہے لیکن پھر بھی بہتر یہی ہے کہ اذان کہی جائے۔ اور جس جگہ محلہ کی اذان نہ ہوئی ہو تو وہاں اذان دینا سنت ہے اور اذان کا چھوڑنا مکروہ ہے۔ فتاویٰ شامی میں ہے:

بخلاف مصل و لو بجماعة في بيته بمصر أو قرية لها مسجدددد فلا يكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه … و قد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر و للمصلي في بيته في المصر فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة قال في البحر و مفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته. (2/ 78 ، دارالمعرفہ ) ۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved