استفتاء
جناب عالی**** کے گھر کے سامنے بریلویوں کی مسجد ہے وہاں حسب معمول جو کچھ ہوتاہے آپ کو معلوم ہوگا ہی۔ لیکن ایک بات جس پر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوا وہ یہ ہےکہ
1۔کہ مولوی صاحب کہہ رہے تھے کہ "آپ ﷺ کو یا رسول اللہ کہنا یہاں پر بھی جائز ہے۔ انہوں نے استدلال میں یہ آیت پڑھی” يآأيها الذين آمنوا” اورکہا کہ اللہ تعالیٰ اس میں "یا " کا لفظ غائبین کے لیے کہہ رہے ہیں۔ اور یہ لوگ (دیوبندی) عجیب باتیں کرتے ہیں کہ جب یا اللہ کہنا جائز ہے تو یا رسول اللہ کہنا بھی جائز ہے۔ اس لیے کہ ان کا عقیدہ ہے آپ ﷺ ہر جگہ حاضر وناظر ہیں۔ ہمارے احناف کے نزدیک یہ بات نہیں مانی جاتی۔ اس سلسلے میں آج انہوں نے کہا کہ ” یا رسول اللہ ” کہنا جائز ہے۔ انہوں نے اس چیز کا استدلال نماز کی التحیات میں سے لیا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں” السلام عليك ياأيها النبی ورحمة الله وبركاته” یہ جو انہوں نے "یا " لفظ کا اضافہ کیا ہے اس پر میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں۔
مہربانی فرماکر یہ بتائیں کہ آیا یہ مسلمان بھی رہیں گے یا نہیں ؟ اور اگر مسلمان نہیں رہتے تو جو لوگ ا ن کے پیچھے نمازپڑھتے ہیں ان کی نماز یقیناً خسارے میں ہے ۔ مہربانی فرماکر جواب دیں عین نوازش ہوگی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بریلوی حضرات اپنے بعض عقائد کی وجہ سے اہل بدعت کے زمرے میں شامل ہیں۔ لیکن کافر نہیں۔ اور ایسے بدعتی کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں یہ قاعدہ ہے کہ مجبوری کے وقت مثلاً جمعہ یا عیدین کی نماز اگر اور جگہ ہوچکی ہو اور صرف بدعتی کے پیچھے ملتی ہو ۔ توان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔ ورنہ ان کے پیچھے عام نمازیں پڑھنا مکروہ ہے۔ اگر اپنی مسجد نہ ہوتواپنے گھر یا اپنی بیٹھک میں اپنی جماعت کرلیں۔ بہر حال اگر کسی نے ان کے پیچھے نماز پڑھ لی تو نماز ذمہ سے ساقط ہوجائیگی۔
(وكره إمامة عبد…والفاسق والمبتدع) فالحاصل أنه يكره لهؤلآء التقدم ويكره الإقتداء بهم كراهة تنريهة ، فإن أمكن الصلاة خلف غيرهم فهوأفضل وإلا فالإقتداء أولیٰ من الإنفراد،وينبغي أن يكون محل كراهة الإقتداء بهم عند وجودغيرهم وإلا فلا كراهة كما لا يخفی.(بحرالرائق: ص611ج1) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved