• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

بیٹوں کےنام خریدے ہوئے پلاٹوں جن کو آگے بیچنے کی نیت ہومیں زکوۃ کاحکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم دو بھائی ہیں زید اور عمرو۔ ہمارا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے اور والد صاحب ڈاکٹر ہیں، والد صاحب نے ہم دونوں بھائیوں کے لیے ایک ایک پلاٹ خریدا، ایک زید کے نام پر ہے اور دوسرا عمرو کے نام پر، اور دونوں پلاٹ تجارت کی نیت سے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ آیا یہ صورت ہبہ کی بنتی ہے یا نہیں؟ اور ہم دونوں بھائیوں پر اپنی اپنی پلاٹ کی زکوٰۃ لازم ہے یا نہیں؟

وضاحت مطلوب ہے:

آپ بھائیوں کے نام پر خریدنے کی تفصیل کیا ہے؟ وہ بیان کریں۔ اگر کوئی تحریر ہے ہے تو وہ ساتھ لف کریں۔ ہبہ سے متعلق والد صاحب نے زبانی یا تحریری کچھ کہا ہو تو وہ بیان کریں؟ بیچنے کی نیت آپ بھائیوں کی ہے یا والد صاحب کی ہے؟

جواب وضاحت:

صراحتاً ہبہ کا لفظ تو نہیں کہا لیکن والد صاحب نے کہا کہ یہ دو پلاٹ تم دونوں کے لیے خریدتا ہوں اور پلاٹ بھی ان دو بیٹوں ہی کے نام پر خریدے گئے۔ مطلب یہ کہ والد صاحب کی ملکیت میں نہیں رہے بلکہ اب دونوں بھائیوں کی ملکیت میں ہیں۔

اور بیچنے کی نیت والد صاحب کی بھی ہے اور اب ہم بھائیوں کی نیت بھی بیچنے کی ہے۔ مطلب والد صاحب نے ہم دو بھائیوں کے لیے یہ دو پلاٹ بیچنے ہی کی نیت سے خریدے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کسی کے نام پر کوئی چیز خریدنے سے وہ اس کی ملکیت نہیں ہوتی جب تک خریدنے کے بعد باقاعدہ اسے ہبہ (ہدیہ) نہ کیا جائے۔ لہذا مذکورہ  صورت میں یہ پلاٹ فی الحال آپ کے والد کی ملکیت میں ہیں اور ان کی فروخت کرنے کی نیت بھی ہے لہذا آپ کے والد پر ان پلاٹوں کی زکوٰۃ آئے گی۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved