• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کے علم میں لائے بغیر بیوی کا شوہر کی طرف سے  زکوٰۃ ادا کرنا

استفتاء

ایک شخص اپنی بیوی کو اپنی ساری آمدن گھر کے اخراجات کے لیے دیتا ہے جیسا کہ عام طور پر رواج ہے اب وہ عورت تھوڑے تھوڑے پیسے بچا کر بچوں کے مستقبل کے لیے جمع کرتی ہے اور بعض وجوہات کی بنا پر شوہر کو اس رقم کا علم نہیں ہے اور نہ ہی بتا سکتی ہے لیکن بیٹوں کو پتہ ہے ۔

( 1) اب اس رقم کا مالک کون ہوگا؟ اگر شوہر ہے تو اس رقم کی زکوٰۃ ادا کرنے کی کیا صورت ہوگی کہ فرض بھی ادا ہو جائے اور شوہر کو رقم کے بارے میں پتہ بھی نہ چلے ۔

(2) اب تک جو گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ جو شوہر کے علم میں لائے بغیر ادا کی گئی ہیں ان کے بارے میں بھی وضاحت درکار ہے کہ وہ ادا ہو گئی یا دوبارہ ادا کرنی پڑے گی؟ شوہر صاحب نصاب ہے اور اپنی بیوی سے ہی رقم لیکر اپنی زکوٰۃ ادا کرتا ہے۔

نوٹ: 1)اگر شوہر کو بتایا جائے تو بہت فساد برپا ہو گا کیا اس شخص کی بیوی اس رقم کی زکوٰۃ اس کو بتائے بغیر خود سے نکال سکتی ہے؟

2)بیوی نے شوہر سے کہا کہ میں آپ کی طرف سے زکوۃ ادا کر دیا کرونگی مگر شوہر نے کہا میں اپنی زکوۃ خود ادا کرونگا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

(1) مذکوہ رقم کا مالک شوہر ہے  اورزکوٰۃ بھی اس کے ذمے آئے گی۔

(2)اب تک جو گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ شوہر کے علم میں لائے بغیر ادا کی گئی وہ ادا نہیں ہوئی دوبارہ ادا  کرنی پڑے گی۔

نوٹ: ہمارے ذہن میں ایسی کوئی صورت نہیں کہ شوہر کو رقم کے بارے میں پتہ بھی نہ چلے اور زکوٰۃ بھی ادا ہو جائے۔

بدائع الصنائع (146/2) میں ہے:وان تصدق بمال المتصدق عنه وقف على إجازته فإن أجاز والمال قائم جاز عن الزكاة، وإن كان المال هالكا جاز عن التطوع ولم يجز عن الزكاة لأنه لما تصدق عنه بغير أمره وهلك المال صار بدله دينا في ذمته، فلو جاز ذلك عن الزكاة كان أداء الدين عن الغير وأنه لا يجوز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved