• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دف اور گانے کی طرز والی حمد و نعت کا حکم

استفتاء

1۔ میں دسویں جماعت کا طالب علم ہوں میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ نعت میں دف کا بجانا اور ایسی نعت جو کسی گانے کی طرز میں پڑھی گئی ہو تو کیا ایسی نعت سننے کی اجازت ہے؟ اور اگر نہیں تو وضاحت کر دیں کیونکہ سننے میں آیا ہے کہ آپ ﷺ کے زمانے میں دف بجایا جاتا تھا۔

لکھے ہوئے لفظ یارسول اللہ کے ساتھ درود شریف پڑھنے کا حکم

2۔ جیسے فضائل اعمال میں اور کتابوں میں ’’یا رسول اللہﷺ‘‘ لکھا ہوا ہو تو کیا درود بھیجنا چاہیے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ایسی نعت کا سننا جائز نہیں۔ دف کی اجازت صرف عید اور شادی کے موقع پر ہے اور اس سے غرض نکاح کی تشہیر اور اعلان ہے۔

’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ لکھا ہو اور خاموشی سے دل میں پڑھیں تو درود بھی خاموشی سے دل میں پڑھ سکتے ہیں[1]۔فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

2۔ ایسے موقع پر صیغہ اگرچہ خطاب کا ہوتا ہے لیکن ہمارے سامنے خکایتاً آتا ہے اس لیے وہ ذکر نبی ﷺ ہے اس لیے درود پڑھنا چاہیے۔

حضرت ڈاکٹر صاحب  مدظلہ کی طرف سے مذکور جواب پر اشکالات:

1۔ کیا یہ واجب ہے یا مستحب ہے؟

2۔ کیا رسول اللہ لکھے ہوئے کو خاموشی سے پڑھنے کا بھی وہی حکم ہے جو زبان سے کہنے کا ہے؟

3۔ کیا آپ ﷺ کا نام لینے پر حکم ہے یا صرف رسول اللہ کہنے پر بھی وہی حکم ہے۔

حضرت ڈاکٹر صاحب کے سوالات کے جوابات از مفتی شعیب صاحب

1۔ کیا یہ واجب ہے یا مستحب؟

جواب: اگر مجلس ایک ہو تو ایک دفعہ ضروری ہے اور ہر دفعہ مستحب ہے۔

قال المحقق ابن الهمام في زاد الفقير: مقتضى الدليل افتراضها في العمر مرةً وإيجابها كلما ذكر إلا أن يتحد المجلس فيستحب التكرار بالتكرار فعليك به اتفقت الأقوال أو اختلفت. (شامي: 2/281)

صحح في الكافي وجوب الصلاة مرة في كل مجلس كسجود التلاوة حيث قال في باب التلاوة: وهو كمن سمع اسمه عليه السلام مراراً لم تلزمه الصلاة إلا مرة في الصحيح لأن التكرار اسمه لحفظ سنته التي بها قوام الشريعة فلو وجبت الصلاة بكل مرة لأفضى إلى الحرج غير أنه يندب تكرار الصلاة بخلاف السجود. (2/228)

2۔ کیا رسول اللہ لکھے ہوئے کو خاموشی سے پڑھنے کا بھی وہی حکم ہے جو زبان سے کہنے کا ہے؟

جواب: اس کی صراحت نہیں ملی البتہ خیال یہ ہے کہ درود کا تعلق ’’ذکر نبی ﷺ‘‘ سے ہے اور ذکر اصلاً تو زبان سے ہے لیکن تحریر تلفظ کے قائم مقام ہے کہ تخاطب و ابلاغ کا ذریعہ ہے۔ اور تحریر لکھنے والے کے  لیے درود لکھنے کا حکم ملتا ہے۔ اس لیے خاموشی سے پڑھنے والے پر بھی ہونا چاہیے۔

اضافہ از مفتی رفیق صاحب: رسول اللہ لکھا ہو اور خاموشی سے پڑھیں تو درود بھی خاموشی سے دل میں پڑھ سکتے ہیں۔

3۔ کیا آپ ﷺ کا نام لینے پر حکم ہے یا صرف رسول اللہ کہنے پر بھی وہی حکم ہے؟

جواب: دورد شریف کی تاکید پر مشتمل اکثر احادیث میں ’’ذُكرتُ عنده‘‘ کے الفاظ ہیں جن میں ذکر مطلق ہے جو نام اور صفات سب کو شامل ہے البتہ ایک آدھ روایت میں نام کی صراحت بھی ہے۔ (فضائل درود۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) اس لیے جس صورت میں بھی آپ کا تذکرہ ہو حکم یکساں ہو گا۔

استدراک و تذییل از مفتی  شعیب صاحب

مطلق تذکرہ کے بارے میں تو درود کی تفصیل اوپر ذکر ہوئی۔ البتہ خاص طور سے مخاطب کے صیغے ’’یا رسول اللہ‘‘ کے ساتھ درود پڑھنے کی بابت کوئی نہیں ملی سوائے صاحب روح المعانی کی اس ضمنی صراحت کے کہ انہوں نے درود کے وجوب کے قول پر اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:

والخامس فلأنه ورد في عدة طرق عن عدة من الصحابة أنهم لما قالوا: يا رسول الله! قالوا: صلى الله عليك. (روح المعاني: 21/351)

تلاش کرنے پر ایسی متعدد روایات مل بھی گئی ہیں۔ لیکن ان روایات کو دیکھنے سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں صحابہ نے شاید یہ کلمہ بطور درود کے نہ کہا ہو بلکہ ایسے کہا ہو جیسے بابی وامی یا رسول اللہ کہتے تھے۔ یا بعض صحابہ کا یہ معمول ہو گا یا کبھی موقع کے مطابق کہتے ہوں گے یا جب کوئی ایک  کہتا ہو گا تو دوسرے پڑھتے ہوں گے۔

اس لیے ’’یا رسول اللہ‘‘ کے ساتھ درود لازمی نہ ہونے کا رجحان بھی معلوم ہوتا ہے خاص طور سے محدثین کی کتابوں کو دیکھیں کہ جنہوں نے درود کا بہت التزام کیا ہے وہ اس لفظ پر درود پاک لکھنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ اگر یہ مطلوب ہوتا تو وہ اس کا التزام فرماتے۔ (شعیب)

 

عرض از مفتی شعیب صاحب:

مفتی رفیق صاحب کو محض ’’نام گرامی‘‘ دیکھنے سے درود کے مطلوب ہونے پر اشکال ہے۔ وجہ اشکال یہ ہے کہ محض رؤیت سے نہ سجدہ تلاوت واجب ہوتا ہے اور نہ ہی نماز فاسد ہوتی ہے۔ اگر محض رؤیت سے درود مطلوب ہو تو جب بھی ’’نامی گرامی‘‘ دیکھا جائے تبدل مجلس کی صورت میں واجب ہو گا جبکہ یہ بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے۔

جبکہ بندہ کے خیال میں نماز فاسد نہ ہونے اور سجدہ تلاوت کے وجوب میں مدار قراءت پر ہے اور قراءت کے لیے تلفظ ضروری ہے جبکہ دورد کا تعلق تذکرہ و ذکر سے ہے جس کے لیے تلفظ ضروری نہیں۔ کاتب کے لیے درود کا حکم بھی اس کا مؤید ہے باوجودیکہ تلفظ وہاں بھی نہیں۔

عرض از مفتی شعیب صاحب

’’یا رسول اللہ‘‘ لکھے ہوئے لفظ کو محض دل سے پڑھنے پر درود پاک کے حکم کی بابت سائل کو تو مختصر حضرت والا کا جواب لکھ دیا ہے البتہ اپنے طور پر ابھی بات صاف نہیں ہوئی کہ حضرت کی اس مسئلے میں رائے کیا ہوئی ہے یعنی کیا:

1۔ ’’یا رسول اللہ‘‘ کے کلمے پر دورد پڑھنے کا حکم وہی ہے جو محض ’’رسول اللہ‘‘ پر ہے یا اس کا حکم مختلف فیہ ہے؟

2۔ لکھے ہوئے ’’نامی گرامی‘‘ پر صرف نظر پڑھنے اور دل میں خاموشی سے پڑھنے پر درود کے وجوب یا استحباب کے حوالے سے کیا حکم ہے؟

(سائل کا سوال، ہماراجواب اور متعلقہ تفصیلات ساتھ لف ہیں)۔ (دار الافتاء)

یہ استفتاء اور اس کا جواب اس کو ریکارڈ میں رکھ لیں بعد میں کسی وقت دوبارہ غور کریں گے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved