- فتوی نمبر: 10-50
- تاریخ: 28 مئی 2017
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ میں کہ میں اور میرا بھائی ایک انگریزی ادویہ ساز کمپنی جو کہ جانوروں اور انسانوں کی ادویات سازی کرتی ہے، میں برابر کے شریک ہیں یہ کمپنی ہمیں اپنے والد صاحب نے بنا کر دی ہے تقریباً ڈیڑھ سال قبل میں نے اپنی ذاتی رقم سے ایک اور ادویہ ساز فیکٹری جو کہ جانوروں کی ادویات بناتی ہے خریدی ہے۔ اس دوسری کمپنی میں میں نے مشترکہ کمپنی کی کوئی رقم نہیں لگائی اور مشترکہ کمپنی سے کوئی مدد بھی حاصل نہیں کی۔
میری ذاتی کمپنی اور مشترکہ کمپنی میں جانوروں کی ادویات مشترک ہیں یعنی ذاتی کمپنی میں جو ادویات تیار کی جا رہی ہیں وہی مشترکہ کمپنی میں بھی تیار کی جا رہی ہیں لیکن دونوں جگہ ادویات الگ الگ تجارتی نام (Brand Name) اور الگ الگ کمپنی کے نام سے تیار کی جا رہی ہیں اور دونوں کمپنیوں کی ادویات کے ڈیزائن بھی بالکل مختلف ہیں البتہ اجزائے ترکیبیہ اور فارمولے ایک جیسے ہیں جبکہ مارکیٹ میں اور بھی کمپنیاں موجود ہیں جو ہماری مشترکہ کمپنی جیسی ادویات اپنے ذاتی تجارتی نام اور ہماری والی ہی اجزائے ترکیبی سے ادویات بناتی ہیں، میرے بھائی کو اعتراض ہے کہ (Similar) یعنی سابقہ کاروبار الگ سے کیوں کر رہے ہیں۔
نوٹ: دوسری کمپنی میں میں عملاً ٹائم نہیں دیتا بلکہ میں نے ایک صاحب رکھے ہوئے ہیں جو اس کے کام کو دیکھتے ہیں البتہ رات کو گھر پر آکر وہ مجھے کار گذاری سنا کر مشاورت کر لیتے ہیں۔
میرے بھائی نے بھی ہماری مشترکہ کمپنی کے علاوہ اپنے متعدد کاروبار شروع کر رکھے ہیں۔ اسے میری کمپنی پر اس پہلو سے اعتراض نہیں کہ یہ تمہاری توجہ بانٹتا ہے بلکہ اس اعتبار سے اعتراض ہے کہ اس سے ہمارے کام کے پرافٹ پر اثر پڑے گا، گویا (conflict of interst) کا مسئلہ ہے یعنی منافع کے تصادم کا مسئلہ ہے۔
بھائی کو میں نے کہا چلو کسی مفتی صاحب سے مسئلہ پوچھ لیتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ ہی پوچھ لو۔ کیا اپنی ذاتی رقم سے میرے لیے اس طرح کی کوئی دوسری کمپنی بنانا شرعاً درست ہے یا نہیں۔ شریعت مطہرہ کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اگر دوسری کمپنی نہ بنانے کے بارے میں آپ کا اپنے بھائی کے ساتھ کوئی تحریری یا زبانی معاہدہ نہ تھا اور نہ ہی دوسری کمپنی بنانے سے پہلی کمپنی میں آپ کی کارکردگی پر کچھ اثر پڑتا ہو تو آپ کے لیے دوسری کمپنی بنانا جائز اور درست ہے۔
شرح مجلہ (4/132، مادہ: 1192) میں ہے:
كل يتصرف في ملكه كيف شاء لكن إذا تعلق حق الغير به يمنع المالك من تصرفه على وجه الاستقلال، لأن كون الشيء ملكاً لرجل يقتضي أن يكون مطلقاً في التصرف فيه كيفما شاء وكون حق الغير متعلقاً به مانع له من ذلك وقد تقدم في المادة أنه إذا تعارض المقتضي والمانع يقدم المانع. وقوله فليس لأحدهما أن يعقل شيئاً مضراً إلا بإذن الآخر، ويفهم منه أن له أن يفعل مالا يضر.
…………………………………………………………. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved