• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

دین میں زکوۃ کامسئلہ

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک آدمی کی لیپ ٹاپ کی دکان ہے بعض اوقات کوئی ایسا شخص اس سے لیپ ٹاپ خریدتا ہے جس کے بارے میں بائع کو پتہ ہے کہ وہ مستحق زکوٰۃہے ،تو کیا بائع کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ مشتری سے کہے  کہ جتنے روپے تم ادا کر سکتے  ہو اتنے ادا کردو اور باقی رقم بائع اپنی زکوٰۃ میں سے  ادا کردے ،کیا اس طریقے سے  زکوٰۃ ادا ہو جائے گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ معاملےکی دو صورتیں ہوسکتی  ہیں ایک یہ کہ لیپ ٹاپ مارکیٹ ویلیو کے مطابق فروخت کیا پھر خریدار نے جتنے پیسے دیئے اتنے رکھ لئے اور باقیوں میں زکوۃ کی نیت کرلی۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ دکاندارنےخریدار سے پہلے پتہ کر لیا کہ وہ کتنے پیسے دے سکتا تھا،پھر جتنے پیسے خریدار دے سکتا ہے اتنے میں اسے لیپ ٹاپ فروخت کر دیا اور باقی میں زکوۃ کی نیت کرلی۔  مذکورہ دونوں صورتوں میں اس طرح نیت کر لینے سے زکوۃ ادا نہ ہوگی  البتہ پہلی صورت میں یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ باقی پیسے خریدار کے قبضے میں دے دیئے جائیں اور پھر لیپ ٹاپ کی قیمت میں وصول کرلئے جائیں جبکہ دوسری صورت میں یہ طریقہ بھی اختیار نہیں کرسکتے کیونکہ دوسری صورت میں لیپ ٹاپ فروخت ہی کم قیمت پر ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے خریدار کے ذمے صرف اتنی ہی قیمت آئی ہے جتنی اس نے ادا کر دی لہذا اگر دکاندار اسے زکوۃ کی رقم دیدے تو اسے واپس نہیں لے سکتا.

فتاویٰ شامی: (3/225) میں ہے:

واعلم أن أداء الدين عن الدين والعين عن العين وعن الدين يجوز، وأداء الدين عن العين، وعن دين سيقبض لا يجوز. و في الشامية تحت  قوله ( واعلم الخ) المراد بالدين ما كان ثابتا في الذمة من مال الزكاة وبالعين ما كان قائما في ملكه من نقود وعروض والقسمة رباعية لأن الزكاة إما أن تكون دينا أو عينا والمال المزكى كذلك لكن الدين إما أن يسقط بالزكاة أو يبقى مستحق القبض بعدها فتصير خمسة فيجوز الأداء في ثلاثة :

 الأولى: أداء الدين عن دين سقط بها كما مثل من إبراء الفقير عن كل النصاب.

 الثانية: أداء العين عن العين كنقد حاضر عن نقد أو عرض حاضر.

 الثالثة: أداء العين عن الدين كنقد حاضر عن نصاب دين.

وفي صورتين لا يجوز.

الأولى: أداء الدين عن العين كجعله ما في ذمة مديونه زكاة لماله الحاضر بخلاف ما إذا أمر فقيرا بقبض دين له على آخر عن زكاة عين عنده فإنه يجوز لأنه عند قبض الفقير يصير عينا فكان عينا عن عين.

 الثانية: أداء دين عن دين سيقبض كما تقدم عن البحر وهو ما لو أبرأ الفقير عن بعض النصاب ناويا به الأداء عن الباقي وعلله بأن الباقي يصير عينا بالقبض فيصير مؤديا بالدين عن العين اه ولذا أطلق الشارح الدين أولا عن التقييد بالسقوط ولقوله بعده سيقبض

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved