• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

دوبارہ نماز جنازہ پڑھانا

استفتاء

اگر ایک شخص فوت ہو جائے تو جس کے آبائی گھر اور رشتہ دار گاؤں میں ہوں۔ اور ایک  عرصہ تک وہ شہر میں مقیم ہے اب آیا اس شخص کا جنازہ دوبار پڑھا جاسکتا ہے یا کہ نہیں؟  اور شہر کے لوگ اس کے گاؤں میں جا کر نماز جنازہ پڑھنے سے قاصر ہیں۔ صورت مسئلہ کی مکمل تفصیل کے ساتھ وضاحت بتا دیجئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

شریعت کی رو سے میت پر صرف ایک دفعہ نماز جنازہ مشروع ہے ۔ چنانچہ ایک دفعہ پڑھنے سے فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اس لیے دوبارہ پڑھنا  اصل کے اعتبار سے درست نہیں۔البتہ شریعت نے ولی کے لیے ایک درجے میں استثناء رکھا ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ پہلا جنازہ اقرب اور زیادہ حقدار ولی کی شرکت یا اجازت کے بغیر ہوا ہو یعنی ولی احق نے پہلے ہونے والے جنازے میں نہ  تو شرکت کی ہو  اور نہ ہی ان لوگوں کو پڑھنے کی اجازت دی ہو، ایسی صورت میں ولی دوسری دفعہ جنازہ پڑھا سکتا ہے۔ اور ولی کے علاوہ  دیگر لو گ جنہوں نے پہلے جنازے میں شرکت نہ کی ہو وہ بھی اس دوسرے جنازے میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور اگر ولی نے اجازت دے دی ہو یا شرکت کر لی ہو تو پھر ولی بھی اعادے کا حق نہیں رکھتا۔ اور جب ولی نہیں رکھتا تو دیگر لوگ بطریق اولیٰ نہیں رکھیں گے۔

قال في المراقي:

فإن صلى غيره أي غير من له حق التقدم بلا إذن ولم يقتد به أعادها هو إن شاء لعدم سقوط حقه وإن تأدى الفرض بها. ولا يعيد معه أي من له حق التقدم من صلى مع غيره لأن التنفل بها غير  مشروع كما لا يصلي  عليها أحد بعده. و إن صلى وحده.

و قال الطحطاوي:

أما إذا أذن له أو لم يأذن ولكن صلى خلفه فليس له  أن يعيد لأنه سقط حقه بالإذن أو بالصلاة مرة و هي لا تتكرر. و لو صلى عليه ولي و للميت أولياء آخرون بمنزلته ليس لهم أن يعيدوا لأن ولاية الذي متكاملة. ( طحطاوی علی المراقی، 591 )

سوال میں ذکر کردہ صورت کے مطابق ہوتا یوں ہے کہ جب کوئی آدمی دوسرے شہر میں فوت ہو جاتا ہے تو ولی عام طور سے یہ کرتا ہے کہ وہ  اگر چہ عملاً جنازے میں شریک نہیں ہوتا لیکن وہ دوسروں کو کہتا ہے کہ ” تم پڑھ لو”۔ ایسی صورت میں اگر چہ ولی نے شرکت تو نہیں کی تاہم اس طرح کہنے کو یا دوسرے لفظوں میں خاموش اجازت کو صریح اذن سمجھا جائے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں تا حال کوئی صراحت تو نہیں ملی، البتہ بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت کو اذن صریح سمجھا  جائے گا۔ اور ایسی صورت میں چاہے ولی نے عملاً شرکت نہ بھی کی ہو تب بھی اسے دوبارہ جنازے کا حق  حاصل نہیں ہوگا۔  فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved