- فتوی نمبر: 10-165
- تاریخ: 15 ستمبر 2017
میرا نام***ہے، میری شادی 27 ستمبر 2015ء میں ہوئی، پہلے مہینے میں میرے میاں نے ہاتھ اٹھایا اس بات پر کہ تم نے Lipstck کیوں لگائی اور چار مرتبہ پھر ہاتھ اٹھایا۔ میرے تین حمل ضائع ہو چکے ہیں، میاں اور سسرال والے کہتے ہیں کہ تم تو شادی سے پہلے ہی کی بیمار ہو حالانکہ میں شادی سے پہلے تندرست تھی، حمل ضائع ہونے کی وجہ سے درد رہتا تھا تو وہ لوگ کہتے تھے کہ ڈرامہ کرتی ہے، اس وجہ سے کام سے بچتی ہے یہ۔ میرے میاں کام پر نہیں جاتے تھے۔
جب بھی حمل ہوتا تو یہی کہتے تھے کہ مجھے ابھی بچہ نہیں چاہیے جب بھی میں بیمار ہوتی تو مجھے میری امی کے گھر چھوڑ جاتے ہیں کہ وہاں پر رہو کہ میں خرچہ برداشت نہیں کر سکتا، تین مرتبہ مجھے یہ میری امی کے گھر بٹھا چکے ہیں، کبھی دس دن کبھی پندرہ دن تو کبھی بیس دن کے لیے، میں کبھی بھی لڑائی جھگڑا کر کے نہیں آئی، ہر مرتبہ خود ہنسی خوشی مجھے میری امی کے گھر چھوڑ جاتے اور پھر فون کر کے کہتے کہ وہی رہو میں نہیں آؤں گا تمہیں لینے، اور پھر تھوڑے دن بعد آجاتے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی مجھے معاف کر دو، تو امی ابو بات چیت کر کے بھیج دیتے۔ اپنے گھر والوں کے سامنے اتنا لڑتے اور اپنے کمرے میں جا کر میرے پاؤں پکڑ لیتے اور رو رو کر مجھ سے معافیاں مانگتے، ایک دن میں نے کہا کہ آپ ایسے کیوں کرتے ہیں تو کہنے لگے کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلتا کہ میں نے کیا کیا اور کیا کہا، وہ اپنی امی کی باتوں میں آکر مجھ سے لڑتے تھے، کوئی بھی بات ہوتی تو کہتے کہ تم گھر میں ہوتے ہوئے بھی میرے لیے نہیں ہو۔ میں کبھی کام پر جانے کا کہتی تو کہتے کہ تم یہاں پر اتنی پریشان ہو تو اپنی امی کے گھر چلی جاؤ تم تو اتنی بے شرم ہو کہ تم مجھ جیسے شخص کے ساتھ رہ رہی ہو تم مجھے چھوڑ کر جاتی کیوں نہیں ہو تم اپنے ابو سے جا کر کہو کہ آپ مجھے ان سے کوٹ کے ذریعے سے طلاق لیں دیں۔
میں ہمیشہ سے اپنا گھر بچانا چاہتی تھی ٹوٹنے سے، اس لیے میں نے کبھی کچھ نہیں بتایا تھا اپنے گھر والوں کو، پھر جب میں تھک گئی تو میں نے بتایا، جب یہ مجھے کہتے کہ میں تمہیں تمہاری امی کے گھر چھوڑ آتا ہوں، تو کبھی کہتے کہ تمہیں تمہاری بہن کے گھر چھوڑ کر آتا ہوں، کوئی بھی بات ہوتی تو یہی کہتے تو ایک دن میں نے مجبور ہو کر کہا کہ میں کہیں نہیں جاؤں گی چھت سے چھلانگ لگا کر مر جاؤں گی، پر امی کے گھر کبھی نہیں جاؤں گی لڑ کر۔ کبھی مذاق سے کہتے ’’فارغ ہو‘‘ تو کبھی غصے میں کہتے کہ ’’فارغ ہو‘‘ کئی بار کہا انہوں نے، اور ایک دو بار یہ بھی کہا کہ ’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ ، ’’تم میری بیوی نہیں ہو‘‘ یہ بھی کہا ایک بار۔ ایک دن میرے پوچھنے پر بتایا کہ تم سے تمہیں فارغ کرنے کی نیت سے نہیں کہتا کہ فارغ ہو فارغ ہو، میں تمہیں چھوڑنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ مجھے ناں کافی مہینوں سے کہہ رہے تھے کہ ’’اس بار تم لڑ کر گئی ناں تو ہمیشہ کے لیے جاؤ گی، نہ میں آؤں گا تمہیں لینے اور نہ میرے ماں باپ آئیں گے‘‘۔
کافی دنوں سے مجھے نظر نہیں آرہا تھا، میں نے اپنے میاں اور ساس کو کہا پر انہوں نے توجہ نہیں دی، پھر میں اپنی امی کے ساتھ نظر ٹیسٹ کروانے گئی تو ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کی دونوں آنکھوں میں سفید موتیا ہو گیا ہے، پھر اگلے دن یورن ٹیسٹ کروایا تو رپورٹ پوزیٹیو آئی۔ میرا حمل کمزور ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر نے مجھے انجکشن لگوانے کے لیے اور بیڈ ریسٹ کرنے کے لیے کہا تھا۔ یہ سب باتیں میں نے اپنے میاں کو بتائی تو وہ مجھے میری امی کے گھر چھوڑ گئے کہ تم اپنی امی کے گھر ریسٹ کر لینا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، پھر اگلی صبح فون کیا میرے ابو کو کہ ’’میں انعم کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر گیا ہوں، میں اس کی اور بچے کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتا۔‘‘ میں 14 اگست سے آئی ہوئی ہوں، میں اور میرے گھر والے بہت پریشان ہیں۔ اب آپ ہی بتایئے کہ ہماری علیحدگی ہو چکی ہے ان کے بار بار کہنے سے کہ نہیں؟ اب میں ان کے پاس واپس جا سکتی ہوں کہ نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں شوہر کے ان جملوں سے کہ ’’فارغ ہو، فارغ ہو‘‘،’’تم میری طرف سے فارغ ہو‘‘ ایک بائنہ طلاق واقع ہو گئی ہے جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے، بیوی عدت گذار کر کہیں اور نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے۔ اور اگر میاں بیوی دوبارہ اکٹھے رہنا چاہیں تو نیا نکاح کر کے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ نئے نکاح میں گواہ بھی ہوں گے اور مہر بھی دوبارہ مقرر ہو گا۔
توجیہ: ’’فارغ ہو‘‘ کا لفظ کنایات کی قسم ثالث میں سے ہے جس میں حالت غضب میں قضاءً طلاق ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved