• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

گندم کی کٹائی کی اجرت اسی گندم میں سے دینا

استفتاء

دسویں حصے پر گندم کی کٹائی، مکئی کی کٹائی یعنی مزدور کے ساتھ یہ طے کرنا کہ  تم فصل کی کٹائی کرو اور اجرت میں کٹی ہوئی  فصل کا دسواں  حصہ ملے گا مثلا اس فصل کے دس گھٹے بنیں گے  تو اس میں سے ایک ملے گا  تو کیاایسا معاملہ کرنا   جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگر کسی علاقے میں مذکورہ صورت کا عرف  ہو تو مذکورہ صورت کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں چونکہ یہ طے ہوتا  ہے کہ کٹی ہوئی فصل کا  دسواں حصہ بطور  اجرت ملے گاایسا نہیں ہے کہ اسے فی الحال فصل کے دسویں حصے کا بطور اجرت مالک بنا دیا جاتا  ہو  لہذا مذکورہ صورت    قفیز طحان کی بنتی ہے  كيونکہ فی الحال مستاجر کو اجرت حوالے کرنے پر قدرت حاصل نہیں ہوتی اس لیے مذکورہ صورت  ناجائز ہے البتہ اگر کسی علاقے میں اس طرح کی صورت کا عرف ہو تو  چونکہ متاخرین فقہاء میں سے مشایخ بلخ وغیرہ  نے  قفیز طحان کی منصوص صورت کے علاوہ صورتوں کے  عرف ہونے کی وجہ سے گنجائش دی ہے اس لیے مذکورہ صورت کی بھی گنجائش  ہے۔

ہندیہ(4/ 446)میں ہے:

رجل استأجر رجلا ‌ليحصد له قصبا في آجمة على أن يعطي له خمس حزمات من هذا القصب لا يجوز .

شامی (9/97)میں ہے:

‌دفع ‌غزلا ‌لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلا ليحمل طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل لانه استأجره بجزء من عمله، والاصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان ۔۔۔۔۔۔ ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا

قوله بجزء من عمله أي ببعض ما يخرج من عمله، والقدرة على التسليم شرط وهو لا يقدر بنفسه زيلعي

(قوله نصف هذا الطعام) قيد بالنصف؛ لأنه لو استأجره ليحمل الكل بنصفه لا يكون شريكا فيجب أجر المثل وهي مسألة المتن. (قوله لا أجر له أصلا) أي لا المسمى ولا أجر المثل عناية. (قوله لصيرورته شريكا) قال الزيلعي؛ لأن الأجير ملك النصف في الحال بالتعجيل فصار الطعام مشتركا بينهما فلا يستحق الأجر؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه هكذا قالوا

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (5/ 130) میں ہے:

مشايخ ‌بلخ ‌والنسفي يجيزون حمل الطعام ببعض المحمول ونسج الثوب ببعض المنسوج لتعامل أهل بلادهم بذلك، وقالوا من لم يجوزه إنما لم يجوزه بالقياس على قفيز الطحان والقياس يترك بالتعارف ولئن قلنا ان النص يتناوله دلالة فالنص يختص بالتعامل.

رسائل ابن عابدین (2/131) میں ہے:

(فإن قلت) إذا كان على المفتي اتباع العرف وإن خالف المنصوص عليه في كتب ظاهر الرواية فهل هنا فرق بين العرف العام والعرف الخاص كما في القسم الأول وهو ما خالف فيه العرف النص الشرعي. (قلت) لا فرق بينهما هنا إلا من جهة أن العرف العام يثبت به الحكم العام والعرف الخاص يثبت به الحكم الخاص.

(وحاصله) أن حكم العرف يثبت على أهله عاماً أو خاصاً فالعرف العام في سائر البلاد يثبت حكم على أهل سائر البلاد والخاص في بلدة واحدة يثبت حكمه على تلك البلدة .

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved