استفتاء
ہمارا گاؤں خانو خیل کی آبادی تقریباً تین چار ہزار ہے۔ مکانات اکثر پکے ہیں، گاؤں میں دو پرائمری سکول مردانہ، ایک پرائمری سکول زنانہ، ایک مکتب سکول، شہر کی آبادی کے باہر ایک زنانہ مڈل سکول، ایک دینی مدرسہ حفظ تا موقوف علیہ تک تعلیم، چالیس دکانیں ( جنرل سٹور، درزی کپڑے، کریانہ، تیل ایجنسی وغیرہ ) چار ڈاکٹر، ایک ڈاکخانہ، پانچ مساجد، دو آٹا مشین، دو آرا مشین وغیرہ موجود ہیں۔
جبکہ گاؤں میں ہسپتال اور بینک کی سہولت نہیں ہے۔ دکانیں متفرق ہیں۔ باقاعدہ بازار کی شکل نہیں ہے۔ دو تین گلیوں کے علاوہ تمام گلیاں کچی ہیں۔ اسی طرح گاؤں میں کوئی ہوٹل ( چائے، کھانے کا ) بھی نہیں ہے۔ پولیس چوکی بھی نہیں ہے۔
عرصہ پچاس ساٹھ سال سے بھی زائد سے یہاں جمعہ قائم ہے۔ جبکہ اس وقت مذکورہ بالا سہولیات بھی نہیں تھیں۔ نماز جمعہ میں گاؤں کی آبادی کے علاوہ مختلف آبادیوں سے کثیر تعداد شریک ہوتی ہے۔ اردو فتاویٰ کو دیکھ خلجان پیدا ہوتا ہے۔ کہیں صرف آبادی اور معمولی سہولیات کی وجہ سے جمعہ کے قیام کی اجازت ہے تو کہیں صراحت تحریر ہے کہ تنہا آبادی معیار نہیں۔ بلکہ بازار، بینک، ہسپتال وغیرہ قریہ کبیرہ کے لیے ضروری قرار دیئے گئے۔ کہیں عرف کو مدار کہا گیا۔ تو دور حاضر کے عرف میں مذکورہ سہولیات کی عدم دستیابی سے قریہ صغیرہ کا اطلاق ہوتا ہے۔
ازروئے شریعت مطہرہ مذکورہ گاؤں میں نماز جمعہ درست ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
فقہاء احناف کا تعریف مصر میں اختلاف ہوا ہے۔ لیکن اصل وہ ہے جو امام صاحب سے مروی ہے۔
في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك و أسواق وله رسايق و فيها وال يقدر على إنصاف مظلوم من الظالم بحشمته و علمه. (شامی، 6/ 3 )
"یعنی ایسی بستی جس میں گلی محلے ہوں، اور کم از کم پچیس تیس متصل اور مستقل دکانوں پر مشتمل ایک بازار ہو جس میں ضرورت کی تقریباً سب چیزیں ملتی ہوں”۔
بعض حضرات نے اس طرح تعریف کی ہے ” کہ ہر وہ جگہ جس کی بڑی مسجد میں اس جگہ کے تمام مکلفین ( یعنی جن لوگوں پر جمعہ فرض ہوتا ہے ) پورے نہ آسکیں تو ایسی جگہ مصر ہے۔
المصر (و هو مالا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) و عليه فتوى أكثر فقهاء. (الدر المختار)
چونکہ موجودہ زمانے میں بہت سی مسجدوں میں جمعہ ہونے لگا ہے اور اس کو امام صاحب رحمہ اللہ کی مذکورہ بالا تعریف کی روشنی میں بند کرنا ممکن نہیں اس لیے دوسری تعریف پر عمل کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ کفایت المفتی میں ہے کہ ” قریہ کبیرہ جس پر مصر کی کوئی تعریف بھی صادق آجائے مثلا(و هو مالا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها ) اس میں اقامت جمعہ جائز ہے "۔( 241/ 3)
آپ کے سوال میں مذکورہ بستی میں پچھلے ساٹھ سال سے جمعہ پڑھا جا رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں دوسرے قول پر عمل کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ اگر جمعہ کو بند کروا دیا جائے تو فتنہ اور انتشار کا باعث ہوگا اس لیے مذکورہ بستی میں جمعہ کو جاری رکھا جائے۔ جیسا کہ کفایت المفتی میں ہے کہ
” مصر کی تعریفیں مختلف اور متعدد منقول ہیں اس مسئلے میں زیادہ سختی کا موقع نہیں اور اس زمانے کے مصالح عامہ مہمہ اس امر کے مقتضی ہیں کہ اقامت جمعہ کو نہ روکا جائے تو بہتر ہے بالخصوص ایسی حالت میں کہ مدت دراز سے جمعہ قائم ہو اس کو روکنا بہت سے مفاسد عظیمہ کا موجب ہوتا ہے "۔(242/ 3 )۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved