• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گواہوں کے ہوتے ہوئے شوہر کا انکار

استفتاء

کچھ عرصہ قبل عرفان نامی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی، یہ بات پورے علاقے میں پھیل گئی، اس نے بذاتِ خود مختلف افراد (مرد و زن) کو براہِ راست اور بذریعہ فون اس واقعہ کی اطلاق دی۔ مثلاً

1۔ ایک شخص سے فون پر کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے۔

2۔ اپنی چچی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری بیوی چلی گئی ہے یا گھر میں ہے۔ اگر نہیں گئی تو ساس کو بتا دینا کہ وہ آکر اپنی بیٹی کو لے جائے، میں اس کو آزاد کر چکا ہوں۔

3۔ ساس کے گھر بھی خود فون کے ذریعہ اطلاع دی اور وجہ یہ بیان کی کہ یہ رشتہ میری مرضی کے خلاف میرے والدین نے طے کیا تھا، اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ میں ایک مسجد میں نہیں سو مسجدوں میں یہ بات کہنے کو تیار ہوں کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی ہے۔

4۔ ایک موقع پر یوں بھی کہا کہ لوگ تین مرتبہ طلاق دیتے ہیں اور میں تین سو مرتبہ طلاق دے چکا ہوں۔

5۔ اس کے تایا نے جب سرزنش کی تو اس نے کہا کہ فلاں فلاں نے بھی تو طلاق دی ہے، میں نے کونسا جرم کیا ہے؟

اور ایک مرتبہ یہ بھی کہا کہ میرے گھر سے نکل جا تو میرے لیے میری بہن کی طرح ہے۔

ان باتوں پر تقریباً دس افراد گواہ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی بیوی کے بقول شوہر نے اس کو کئی بار لفظ طلاق کے ساتھ طلاق دی ہے اور جب بھی گھر آتا ہے تو یوں کہتا کہ میں تجھے چھوڑ چکا ہوں تو تو یہاں کیوں بیٹھی ہے۔

اب مذکورہ شخص یعنی عرفان بجز ان دو جملوں کے کہ "کہ میرے گھر سے نکل جا اور تو میرے لیے بہن کی طرح ہے”۔ اب اپنے تمام اقوال سے انکاری ہے اور بیوی اور دیگر لوگوں کی تردید کر رہا ہے۔

1۔ مذکورہ تفصیل کے ساتھ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر ہوئی ہے تو کونسی؟ اور کیا ان دونوں کا نکاح دوبارہ ہو سکتا ہے یا نہیں؟

2۔ نیز طلاق کی صورت میں مہر کا حکم کیا ہے؟

3۔ بچی کی پرورش کا حق کس کو ہے اور اس کے اخراجات کس کے ذمہ ہیں؟

وضاحت: مذکورہ شخص کے بارے میں باقاعدہ قانونی کاروائی کرنے کے لیے جب جرگہ بیٹھا تو مہر وغیرہ وجوہات کی بناء پر وہ اپنے باپ کے دباؤ کی وجہ سے انکاری ہو گیا۔ لیکن اس کے طلاق دینے پر متعدد لوگ حلف اٹھانے کو تیار ہیں۔

نوٹ: پہلی مرتبہ سے لے کر آخری مرتبہ تک شوہر کا سارا کلام ایک مہینہ کے دوران ہوا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں عورت کے بیان کے مطابق تین طلاقیں واقع ہو گئیں ہیں اور عورت کے بیان پر گواہوں کی  موجودگی کے باوجود شوہر کا انکار کرنا معتبر نہیں، اور بالفرض شوہر کے انکار کو تسلیم کر لیں تب بھی شوہر کے بیان کے مطابق ایک طلاق بائن ہو چکی ہے، جس کی وجہ سے نکاح ختم ہو گیا ہے، لہذا عورت کے لیے مذکورہ شوہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کر کے رہنا جائز نہیں۔ فقط و اللہ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved