• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غلط بیانی کرکے حکومت سے پیسے لینا

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ وزیرستان میں حکومت نے آپریشن کیا اور لوگ پہلے سے وہاں ملک کے مختلف علاقوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں ۔اور آپریشن کی وجہ سے لوگوں کے گھر بالکل منہدم ہوچکے ہیں ۔اب حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن لوگوں کے آپریشن کی وجہ سے گھر برباد ہوئے ہیں حکومت ان کا نقصان پیسے روپے کی صورت میں پورا کرنا چاہتی ہے۔ اب اس مسئلے کی مختلف صورتیں ہیں ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس مسئلے کی مندرجہ ذیل صورتوں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

(1             بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ کسی اور کی زمین میں کمرہ بنادیتے ہیں اور خودہی کمرے کو جلادیتے ہیں اور حکومت کو کہتے ہیں کہ یہ ایک ہماراکمرہ بھی آپریشن میں برباد ہوا ہے ۔لہذا ہمیں بھی پیسہ روپیہ دیا جائے۔

2)            حکومت کی ٹیم سروے کر رہی ہے اور سروے میں تحصیل دار اور ایک میجر بھی ہوتا ہے اور وہ تحصیل دار اور میجر بعض لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ ہمیں کچھ پیسے دیں اگر آپ کا نقصان دو کمروں کا ہوا ہے توہم دو کے بجائے چار کمروں کا نقصان لکھ دیں گے ۔

(3             بعض لوگوں کا نقصان دو کمروں سے زیادہ ہوا ہے لیکن حکومت کی ٹیم صرف ان کو دو کمروں کے پیسے دیتی ہے باقی نقصان کا ازالہ حکومتی ٹیم تب کرتی ہے جب حکومتی ٹیم کو پہلے کچھ رقم ایڈوانس میں ادا کی جائے تو اس صورت میں مالدار لوگ تو وہ رقم دے سکتے ہیں لیکن وہ رقم غریب کی ہمت سے بڑھ کر ہوتی ہے تو کیا پیسے دے کر بقیہ نقصان کا ازالہ کرنا جائز ہے؟

(4             اگر کسی شخص کا نقصان دو کمروں کا ہوا ہے تو حکومتی ٹیم اس کو دو ٹوکن دیتی ہے اور ہر ٹوکن چار چار لاکھ روپے پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ دو ٹوکن تقریباً ایک سال کے بعد چیک میں تبدیل ہوجاتے ہیں یعنی دو ٹوکن کے آٹھ لاکھ روپے ایک سال کے بعد وصول کئے جاتے ہیں ۔تو اب ایک شخص دوسرے شخص (جس کے پاس دو ٹوکن ہیں ) سے کہتا ہے کہ یہ آٹھ لاکھ روپے آپ کو ایک سال کے بعد ملے گا آپ ایسا کرلو کہ میں اپنی طرف سے آپ کو ابھی نقد چھ لاکھ روپے دیتا ہوں اور آپ کے آٹھ لاکھ روپے ایک سال کے بعد میں لے لوں گا تو کیا ایسا کرنا بھی جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۔ یہ غلط بیانی ہے اور ناجائز ہے۔

۲۔ یہ بھی غلط بیانی ہے جب تک درست طریقے سے پورا حق وصول ہوسکتاہو اس سے اجتناب کرناضروری ہے۔

۳۔            اپنے حق کی وصول کے لیے یہ رقم دینا جائز ہے تاہم لینے والے کے لیے رشوت ہے ۔

۴۔            یہ صورت جائز نہیں ایک تو اس وجہ سے کہ یہ بیع الدین من غیر من علیہ الدین ہے جو کہ ناجائز ہے اور دوسرے اس وجہ سے کہ یہ صورت ایک کرنسی کو اسی ملک کی کرنسی کے بدلے میں کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنے کی ہے جو کہ ناجائز ہے ۔مزید یہ کہ دونوں طرف کی کرنسی پر مجلس عقد میں قبضہ بھی نہیں ہے جوکہ ضروری ہے۔ البتہ بیع الدین من غیر من علیہ الدین دوسرے ائمہ کے نزدیک جائز ہے اس لیے اگر کسی کو خاص مجبوری ہو تو ان ٹوکنوں کو کسی دوسرے ملک کی کرنسی مثال ریال یا ڈالر کے عوض کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرسکتے ہیں ۔اور اس صورت میں ڈالریاریال پر قبضہ کافی ہو گا۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved