• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

گیارہ ا ور بارہ تاریخ کو زوال سے پہلے رمی کرنا

استفتاء

پچھلے دو سالوں سے سعودیہ حکومت نے ۱۱ اور ۱۲ ذوالحجہ کو زوال سے قبل رمی کرنے کی اجازت دی تھی۔جس پر بعض پاکستانی مفتی حضرات نے فتوی دیا تھا کہ کہ ایسا کرنا  ناجائز ہے مگر جمہور نے اس مسئلے سے اختلاف کیا۔

۱۔ جن لوگوں نے زوال سے پہلے فتوی کے مطابق رمی کی کیا ان کی رمی ہو گئی؟

۲۔ اگر دم واجب ہوتا ہے تو جانور کتنی عمر کا ہو؟

۳۔ جانور کی جگہ اس کے پیسے دیے جا سکتے ہیں؟

۴۔ بعض لوگ وہاں کے بینک میں پیسے جمع کراتے ہیں(قربانی یا دم وصدقہ کے)کیا یہ درست ہے۔

۵۔ جانور کی قیمت پاکستانی حساب سے ادا کی جائے یا سعودی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

۱۱۔۱۲ ذوالحجہ کو زوال سے پہلے رمی کرنا جائز نہیں اگر کسی نے زوال سے پہلے رمی کر لی تو اس پر ایک دو دانت کی بکری بطور دم کے دینا واجب ہے جانور کی جگہ کسی فقیر کو پیسے نہیں دیے جاسکتے۔بینک والے اگر دم کا اہتمام کرتے ہیں تو اس میں دم اور صدقہ کے لیے پیسے جمع کرواسکتے ہیں۔قیمت سعودیہ کے حساب سے ہوگی کیونکہ جانور کو حرم میں ذبح کرنا ضروری ہے۔

وقت رمي الجمار الثلاث في اليوم الثاني والثالث من ايام النحر بعد الزوال(فلا يجوز)اي الرمي قبله اي قبل الزوال فيهما (في المشهور) اي عند الجمهور كصاحب الهداية وقاضي خان والكافي والبدائع وغيرهما۔ قال المحشي، فلا يظهر هذا(اي الرمي قبل الزوال) مع ان الصحابةؓ ايضا فهو امن فعله عليه الصلوة والسلام ان وقت الرمي في ايام التشريق بعد الزوال۔۔۔۔۔وحينئذ خلافه يشبه خلاف الاجماع فما يفعله كثير من الناس من الرمي قبل الزوال فهو خطاء موجب للدم۔فقط والله تعالي اعلم مناسك ملا علي القاري علي لباب المناسك(ص۳۳۷)

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved