استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عصر حاضر کا ایک معرکۃالآراء مسئلہ حنفی کا شافعی امام کے پیچھے نماز وتر پڑھنے کا ہے،خلیجی ممالک کے علاوہ حرمین شریفین میں بھی احناف کو یہ مسئلہ درپیش ہے اکابر کے فتاوی جات پر نظر ڈالنے سے دو رائے سامنے آتی ہیں، ایک عدم جواز کی دوسری جواز کی۔
پہلی رائے:
جو حضرات عدم جواز کے قائل ہیں، ذیل میں ان کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں:
شیخ الحدیث مفتی سید نجم الحسن امروہی دامت برکاتہم ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
احناف کے ہاں وتر تین رکعات ہیں جو کہ ایک سلام کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں،لہذا صورت مسئولہ میں میں اگر شافعی امام وتر میں پہلی دو رکعت کے بعد سلام پھیرتا ہے اور اس کے بعد ایک رکعت پڑھ کر آخر میں پھر سلام پھرتا ہے تو ایسے شافعی امام کے پیچھے حنفی کی اقتداء شرعاً درست نہیں ہے ،اگر شافعی امام دو رکعت کے بعد سلام نہیں پھیرتا بلکہ تینوں رکعات کے لیے آخر ہی میں سلام پھیرتا ہے تو اس کے پیچھے حنفی کی اقتداء درست ہے (نجم الفتاوی:2/450)
جبکہ مفتی سید عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کے جواب میں یوں لکھتے ہیں:
صحیح قول یہ ہے کہ شافعی امام وتر دو سلام سے ادا کرے تو حنفی مقتدی اس کی اقتدا نہ کرے ،اسی میں احتیاط ہے ( فتاوی رحیمیہ:4/190)
اور شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں:
شافعی حضرات کیونکہ وتر دو سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں اور حنفی مسلک میں اس طرح نماز نہیں ہوتی، اس لیے حنفی حضرات کو چاہئے کہ وہ وترمیں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں بلکہ اپنی نمازعلیحدہ ادا کریں، تراویح ان ہی کے ساتھ ادا کر لیا کریں اور وتر کے وقت علیحدہ ہو جائیں (فتاوی عثمانی: 1/474-475)
دوسری رائے:
تاہم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم دوسری جگہ چند شرائط کے ساتھ شافعی امام کے پیچھے حنفی کے وتر میں اقتدا کو درست قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
شافعی کے پیچھے حنفی کی اقتداء چند شرائط کے ساتھ جائز ہے:
- حنفی کے مذہب کے مطابق شافعی کی نماز میں کوئی مفسد نماز فعل نہ ہو۔
- حنفی مقتدی کو یقین ہو کہ شافعی امام جائز و ناجائز کے اہم مختلف فیہ مسائل میں احتیاط سے کام لیتا ہے ۔مثلا بہتے ہوئے خون کے نکلنے سے وضو کرلیتا ہے اور اگر اسے اس کا یقین ہو کہ امام احتیاط نہیں کرتا تو نماز صحیح نہ ہوگی اور اگر اس سلسلے میں کچھ معلوم نہیں کہ امام احتیاط کرتا ہے یا نہیں تو نماز مکروہ ہوگی۔
3.وتر میں اقتدا کرنے کے لئے ایک شرط یہ بھی ہے کہ تین رکعتوں کو دو سلاموں کے ساتھ نہ پڑھے جیسا کہ ان کا مذہب ہے اور اس میں مقتدی کو اپنا قنوت اللهم انانستعينک ….الخ رکوع کے بعد پڑھنا چاہیے پہلے نہیں،کیونکہ شافعی امام بھی رکوع کے بعد پڑھے گا اور اس مسئلے میں اس کی متابعت کرنا ضروری ہے ۔(فتاوی عثمانی:1/473)
جبکہ حضرت مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم (جنوبی افریقہ )مطلقاً شافعی امام کے پیچھے حنفی کی کے وتر پڑھنے کے جواز کے قائل ہیں ،چنانچہ ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
شافعی امام تین رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھائےتو حنفی کا وتر صحیح ہے اور اگر دو سلاموں سے پڑھائے تو حنفی مقتدی کھڑے ہوکر اپنے وتر پورا کرلے تو حنفی کا وتر صحیح ہے ،دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔البحرالرائق(2/39،باب الوتر) میں ہے:
وجوزه ابوبکرالرازي ويصلي معه بقية الوترلان امامه لم يخرج بسلامه عنده وهومجتهد فيه
فتح القدير(1/437،باب صلاة الوتر،)ميں هے:
وقول ابي بکرالرازي ان اقتداء الحنفي بمن يسلم علي راس الرکعتين في الوتر يجوزواذاسلم الامام علي راس الرکعتين فام المقتدي قاتم منفردا وکان شيخنا سراج الدين يعتقد قول الرازي.
حضرت شاه صاحب کشميري فرماتے هيں:
لواقتدي خلف الشافعي وسلم الشافعي علي الرکعة الثانيةو هومذهبهم ثم اتم الوترصح وتر الحنفي عندابي بکرالرازي وابن وهبان
ولو حنفي قام خلف مسلم لشفع ولم ينبع وتم فموتر
العرف الشذي علي سنن الترمذي 1/104 باب ماجاء في فضل الوتر
فتاوی حقانیہ میں ہے:
اسی طرح اگر وتر بالتسلیمتین یعنی دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر وتر پورا کرے تو امام ابوبکر الجصاصؒ اور متاخرین فقہاءؒ کے ہاں اقتداء درست ہے اور یہی ترجیح حالات کی مقتضی ہے (فتاوی حقانیہ:)
مذکورہ بالا تفصیلی بحث سے جوازہی معلوم ہوتا ہے اور دارالعلوم کراچی کا ایک فتویٰ بھی جواز کا ہے ملاحظہ فرمائیں:
الجواب حامداومصلیا ً
ائمہ حرمین شریفین زادہماللہ شرفاً کی اقتدا پڑھنے کا مسئلہ معرکۃ الآراء مسائل میں سے ہے ، کیونکہ احناف کے ہاں تین وتر ایک سلام کے ساتھ ہے جبکہ اس وقت ائمہ حرمین شریفین مذہب حنابلہ کے مطابق دوسلاموں کےساتھ تین وتر پڑھاتے ہیں یہ بھی واضح رہے کہ اس مسئلہ کا اصل تعلق مخالف فی الفروع امام ( یعنی شافعی ، حنبلی اور مالکی ) کی اقتداء میں وتر پڑھنے سے ہے ،ا ور فقہاء احناف رحمہم اللہ کے اس بارے میں تقریباً چھ اقوال ہیں جن میں سے بنیادی اور مشہور قول دوہیں :
پہلا قول : یہ ہے کہ مخالف فی الفروع کی اقتداء میں حنفی کا وترپڑھنا اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ امام دورکعت کے بعد سلام نہ پھیرے ۔ بہت سے فقہاء احناف رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس قول کواصح قرار دیاہے اور ہمارے اکابر کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اسی قول کے مطابق فتویٰ بھی دیاہے ۔ مثلا ً : صاحب اعلاء السنن حضرت مولانااظفر احمد عثمانی قدس سرہ العزیز نے امداد الاحکام ( ج 1ص59) میں اس کے مطابق فتوی دیا۔ نیز جامعہ دارالعلوم کراچی سے بھی حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب قدس سرہ العزیز کے زمانے میں انہی کی تصدیق سے اس قول کے مطابق فتویٰ ( 23 ( ہ) 1142جاری ہوا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ مخالف فی الفروع کی اقتداء میں وتر کی نماز مطلقاًجائز ہے ، اگرچہ امام دورکعت پر سلام پھیردے ۔یہ قول علامہ ابوبکر جصاص رازی ؒ ؒ کا ہے، اسی قول کو علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کے استاد علامہ سراج الدین ؒ نے اختیار فرمایا، نیز علماء احناف کی ایک جماعت کی بھی یہی رائے ہے ۔مثلا فقیہ ابو جعفر الہندوانی رحمہ اللہ ، قاضی القضاء علامہ ابن وہبان رحمہا للہ وغیرہما کی یہی رائے ہے اور علامہ ابوالحسنات عبدالحیی لکھنوی رحمہ اللہ نے اسی قول پر فتویٰ دیاہے اور فرمایاکہ محققین کے نزدیک مخالف فی الفروع امام کی اقتداء میں حنفی کی نماز مطلقاًجائز ہونے کو راجح اور مختار قرار دیا۔شیخ المشائخ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب قدس سرہ العزیز نے بھی مخالف فی الفروع امام کی اقتداء کو مطلقاً جائز قرار دیااورفرمایا کہ محققین کے نزدیک حنفی کی شافعی المذہب اقتداء یا شافعی کی حنفی امام کی اقتداء جائز ہے ۔ ( ملاحظہ ہوعزیز الفتاویٰ ص 239، فتاویٰ دارالعلوم دیوبند مدلل ج 3 ص 143)
دورحاضر میں حرمین شریفین میں لوگوں کی کثرت ازدحام اور عوام میں مسائل نماز وغیرہ میں جہالت عام ہونے کی وجہ سے عدم اقتداء کی صورت میں بعض شرعی محظور ات لازم آرہے ہیں ،اورلوگوں کو حرج لاحق ہورہاہے،اس لیے دورحاضر میں اگرحنفی کے لیے محظورات سے بچتے ہوئے اپنا وتر الگ پڑھنا ممکن نہ ہو تو ا س دوسرے قول کے مطابق عمل کرتے ہوئے ائمہ حرمین کی اقتداء میں وتر پڑھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ۔اس صورت میں وتر اداہوجائے گا ، لوٹانا لازم نہیں ۔
( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : فتویٰ نمبر 62/1751 )واللہ اعلم بالصواب
عصر حاضر میں دنیا سمٹ کر ایک ہی وقت میں مختلف ممالک و مسالک کے لوگ ایک ہی جگہ رہ رہے ہیں اور ایک ہی مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ عرب ممالک خصوصا خلیجی ممالک میں احناف کی کثیر تعداد روزگار کے حوالے سے وہاں بس رہیں ہے، کیونکہ عرب ممالک کے اکثر ائمہ کرام وتر دو سلام کے ساتھ پڑھتے ہیں، اگر عدم جواز کا فتوی دیا جائے یا جواز کا فتوی صرف حرمین شریفین تک محدود رکھا جائے تو اس میں کئی مشکلات کا سامنا ہے جیسے کہ آئے روز سننے میں آرہا ہے ۔یاد رہے کہ خلیجی ممالک میں اکثر ائمہ کرام تو شافعی مسلک ہیں یا غیر مقلد ہیں،تاہم حرمین شریفین میں بیس رکعت تراویح پڑھنے کی وجہ سے نسبتا مشکلات کم ہیں جبکہ دیگر عرب ممالک میں بدقسمتی سے آٹھ رکعت تراویح پڑھ کر وتر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں، ایسی صورت میں احناف کے لئے مزید مشکلات پیدا ہوتی رہتی ہیں مثلا اگر حنفی امام کے پیچھے الگ جماعت کے ساتھ بقیہ تراویح، وتر پڑھتے ہیں تو مسجد کی امام سمیت انتظامیہ کی طرف سے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں اور مسجد میں انتشاروخلفشاربھی پیدا ہوتا ہےاوراگرہاسٹل یاگھر جاکر بقیہ تراویح پڑھتے ہیں تو اس میں بھی حرج ہے اور وتر باجماعت کی فضیلت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں۔
لہذا راقم الحروف کی طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ جب وتر باجماعت پڑھنے کے بعد بقیہ تراویح پڑھنے کی اجازت شریعت میں ہے جیسا کہ فقہاء کرام نے لکھا ہے:
ويصح تقديم الوترعلي التراويح وتاخيره عنها(نورالايضاح،فصل في التراويح)
اسی طرح دررالحکام في شرح غررالاحکام(1/52)میں ہے:
(و)وقت(التراويح بعدالعشاء الفجر)قبل الوتروبعده لانهانوافل سنت بعد العشاءوهو الاصح
چنانچہ ابوبکرالحدادصاحب الجوہرۃالنیرۃ (156 مکتبہ البشری)میں لکھتے ہیں:
قوله(ثم يوتربهم)فيه اشارةالي ان وقت التراويح بعدالعشاءقبل الوتروبه قال
عامةالمشايخ والاصح ان وقتهابعدالعشاءالي آخرالليل قبل الوتروبعده لانها نوافل سنة بعدالعشاءکذافي الهدايةوقال ابوعلي النسفي الصحيح انه لوصلي التراويح قبل العشاء لاتکون تراويح ولو صلاها بعدالعشاءوالوترجازويکون تراويح
اسی طرح بحر العلوم حضرت مولانا عبدالعلی سہالوی رحمۃ اللہ علیہ یہ اپنی مایہ ناز تصنیف’’ رسائل الارکان‘‘ (108)میں رقمطراز ہیں:
وان سلم الشافعي بعدالرکعتين في الوترفهل يصح وترحنفي خلفه فقال الشيخ ابوبکرالرازي يصح وهوالمختارلان سلامه غيرقاطع في حق المقتدي لانه سلامه وان کان بنية قطع الشفعةلکنه في غيرمحله بزعم المقتدي وياتي به الامام علي اعتقادانه مشروع فصارفي حق المقتدي کالسلام علي راس الرکعتين بنية القطع علي ظن تمام الصلاة ولعل هذا الحکم اذا لم يوجدبين سلامه وبين تکبيرة الرکعة الثالثة مايفسد الصلاة من الکلام ونحوه واما لووجد في اثنائها فيفسد
لہذا اس میں اگر تو سع سے کام لے کر شافعی امام کے پیچھے وتر پڑھنے کی مطلقا گنجائش دی جائے تاکہ وتر باجماعت کا ثواب بھی ملے اور امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق بھی رہے، اس میں کیا حرج ہے؟جبکہ بعض ائمہ احناف کا اس بارے میں جواز کا قول بھی ہے، علاوہ ازیں حالات کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اس میں گنجائش ہو جیسا کہ فتاوی حقانیہ میں ہے:
غیر حنفی امام اگر دو رکعت کے بعد بغیر سلام کے تین وتر پورا کرتا ہو تو اس کی اقتدا درست ہے اسی طرح اگر وتر بالتسلیمتین یعنی دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر وتر پورا کرے تو امام ابو بکر جصاص رحمۃاللہ
اور متاخرین فقہاء کے ہاں اقتداء درست ہے اور یہی ترجیح حالات کی مقتضی ہے۔
جبکہ دارالعلوم کراچی کے فتوے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ
وقت کا تقاضا یہی ہے کہ اس میں جواز کا قول کیا جائے،عوام ميں مسائل نماز وغیرہ میں جہالت عام ہونے کی وجہ سے عدم اقتدا کی صورت میں بعض شرعی محظورات لازم آرہے ہیں اور لوگوں کو حرج لاحق ہو رہا ہےاس لیے دور حاضر میں اگر حنفی کے لئے محظورات سے بچتے ہوئے اپنا وتر الگ پڑھنا ممکن نہ ہو تو اس دوسرے قول کے مطابق عمل کرتے ہوئے ائمہ حرمین کی اقتداء میں وتر پڑھنے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم بالصواب
چنانچہ مذکورہ بالا تحقیق کو مدنظر رکھتے ہوئے عصرحاضرکے مشکلات کے پیش نظر چند سوالات کا جواب مطلوب ہے:
1.کیا وتر میں شافعی امام کی اقتدا مطلقا درست ہے ؟یا فقہ حنفی میں مذکورہ شرائط کی رعایت رکھنے والے امام کی اقتداء کو درست متصور کیا جائے گا اگرچہ وہ ان شرائط کا اپنے آپ کو پابند سمجھتے بھی نہیں؟
2.کیا وتر میں غیر مقلد یا سلفی امام کی اقتداء( چاہے حرمین شریفین ہوں کسی اور جگہ) درست ہے یا نہیں؟
- کیا آٹھ رکعت تراویح پڑھنے کے بعد امام کے ساتھ باجماعت وتر پڑھنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟
4.اگر اجازت ہے تو کیا پورے رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کے بعد وتر باجماعت پڑھنے کو معمول بنانے کا کیا حکم؟
5.کیا آٹھ رکعات تراویح پڑھ کر وتر باجماعت ادا کرنے کے بعد بقیہ بارہ رکعات تراویح باجماعت پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
- دونوں صورتوں میں کونسی صورت افضل واولی ہے؟کیا آٹھ رکعت باجماعت پڑھ کر وتر باجماعت نہ پڑھے بلکہ انفرادی طور پر بارہ رکعات تراویح پڑھ کر وتر بھی بغیر جماعت کے پڑھے جبکہ دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ وتر باجماعت پڑھ کر بقیہ بارہ رکعات انفرادا ًپڑھ لے ،دوسری صورت میں کم از کم وتر با جماعت کی فضیلت توحاصل ہوگی،مذکورہ دونوں صورتوں میں فتوی کس صورت پر دیا جائے؟اول یا ثانی؟
7.کیا حنبلی امام کی اقتدا میں رکوع کے بعد حنفی مقتدی کے لئے دعائے قنوت پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟یا اس پہ آمین کہنا جائز ہے یا نہیں یا خاموش رہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
تمہید:جب امام کی نماز میں کوئی ایساامرپایاجائےجومقتدی کےمذہب کےمطابق مفسدصلوۃ(نمازفاسدکرنے والا)ہولیکن امام کےمذہب کےمطابق مفسدصلوۃنہ ہوتوایسی صورت میں مقتدی کی نمازہوجائےگی یا نہیں؟ اس بارے میں بنیادی طور پر دوقول مشہور ہیں اور دونوں کی تصحیح کی گئی ہےالبتہ محققین کا رجحان اس طرف ہے کہ ایسی صورت میں مقتدی کی نماز نہ ہو گی۔جس صورت میں امام وتر کی دورکعتوں پر سلام پھیرتا ہواس صورت میں حنفی مقتدی کے لیے وتر میں شافعی یا حنبلی امام کی اقتداء بھی اسی قبیل سے ہےچنانچہ اس میں بھی یہی تفصیل جاری ہوگی۔
حاشية ابن عابدين (2/361)
قوله ( لكن في وتر البحر الخ ) هذا هو المعتمد لأن المحققين جنحوا إليه وقواعد المذهب شاهدة عليه وقال كثير من المشايخ إن كان عادته مراعاة مواضع الخلاف جاز وإلا فلا ذكره السندي المتقدم ذكره ح
قلت وهذا بناء على أن العبرة لرأي المقتدي وهو الأصح وقيل لرأي الإمام وعليه جماعة قال في النهاية وهو أقيس وعليه فيصح الاقتداء وإن كان لا يحتاط كما يأتي في الوتر
اورباب الوتر(2/537)میں ہے:
( وصح الاقتداء فيه ) ففي غيره أولى إن لم يتحقق منه ما يفسدها في اعتقاده في الأصح كما بسطه في البحر ( بشافعي ) مثلا ( لم يفصله بسلام ) لا إن فصله ( على الأصح ) فيهما للاتحاد وإن اختلف الاعتقاد
قوله ( كما بسطه في البحر ) حيث ذكر أن الحاصل أنه أن علم الاحتياط منه في مذهبنا فلا كراهة في الاقتداء به وإن علم عدمه فلا صحة وإن لم يعلم شيئا كره
مطلب الاقتداء بالشافعي ثم قال ظاهر الهداية أن الاعتبار لاعتقاد المقتدي ولا اعتبار لاعتقاد الإمام حتى لو اقتدى بشافعي رآه مس امرأة ولم يتوضأ فالأكثر على الجواز وهو الأصح كما في الفتح وغيره
وقال الهندواني وجماعة لا يجوز ورجحه في النهاية بأنه أقيس…. قال في النهر وعلى قول الهندواني يصح الاقتداء وإن لم يحتط ا هـ وظاهره الجواز وإن ترك بعض الشروط عندنا لكن ذكر العلامة نوح أفندي أن اعتبار رأى المقتدي في الجواز وعدمه متفق عليه وإنما الخلاف المار في اعتبار رأي الإمام أيضا…وفيه نظرقريبا… قوله ( على الأصح فيهما ) أي في جواز أصل الاقتداء فيه بشافعي وفي اشتراط عدم فصله خلافا لما في الإرشاد من أنه لا يجوز أصلا بإجماع أصحابنا لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل وخلافا لما قاله الرازي من أنه يصح وإن فصله ويصلي معه بقية الوتر لأن إمامه يخرج بسلامه عنده وهو مجتهد فيه كما لو اقتدى بإمام قد رعف
قلت ومعنى كونه لم يخرج بسلامه أن سلامه لم يفسد وتره لأن ما بعده يحسب من الوتر فكأنه لم يخرج منه وهذا بناء على قول الهندواني بقرينة قوله كما لو اقتدى الخ ومقتضاه أن المعتبر رأي الإمام فقط وهذا يخالف ما قدمناه آنفا عن نوح أفندي
مذکورہ تمہیداورحوالہ جات سےمعلوم ہواکہ جس صورت میں امام وترکی دورکعتوں پرسلام پھیرتاہو اس صورت میں حنفی کےلیےوتروں میں ایسے امام کی اقتدا جائزنہیں اوراسی میں احتیاط ہےالبتہ اگرکوئی مجبوری کی صورت ہویالاعلمی میں مذکورہ امام کےپیچھےوترباجماعت پڑھ لیےہوں تودوسرےقول کےمطابق گنجائش ہے ۔
مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کا جواب یہ ہے :
۱۔ اصح قول کے مطابق وتروں میں شافعی یا حنبلی امام کی اقتداء مطلقا درست نہیں البتہ مرجوح قو ل کے مطابق گنجائش ہے اور اس مرجوح قول پر علی الاطلاق فتوی دینا درست نہیں تاہم ضرورت کے موقع پر اس پر عمل کرنے اور فتوی دینے میں کچھ حرج نہیں۔
۲۔ اس کا بھی وہی حکم ہے جو نمبر ایک کا ہے۔
۳۔۴۔مذکورہ بالاتفصیل کےمطابق گنجائش ہےمطلقاگنجائش نہیں۔
۵۔ جائزہے۔
۶۔ اگرامام وترکی دورکعتوں پرسلام پھیرتاہوتو ایسی صورت میں اصح قول کےمطابق وترباجماعت پڑھناجائزنہیں،البتہ مجبوری کےحالات مستثنی ہیں اوراگردورکعتوں پرسلام نہ پھیرتاہوتو پھروترباجماعت پڑھناافضل ہےاس کےبعدبقیہ تراویح پڑھے۔پھروترخواہ باجماعت پڑھےجائیں یابغیرجماعت کے پڑھےجائیں بہرصورت بقیہ تراویح باجماعت پڑھناممکن ہوتوباجماعت پڑھنا افضل ہےورنہ انفرادی پڑھی جائیں
فی الشامی:2/599
وهل الأفضل في الوتر الجماعة أم المنزل تصحيحان
قوله ( تصحيحان ) رجح الكمال الجماعة بأنه كان أوتر بهم… وفي شرح المنية والصحيح أن الجماعة فيها أفضل إلا أن سنيتها ليست كسنية جماعة التراويح ا هـ قال الخير الرملي وهذا الذي عليه عامة الناس اليوم ا هـ
دوسری جگہ(2/598)میں ہے:
فلوفاته بعضهاوقام الامام الي الوتراوترمعه ثم صلي مافاته قوله(فلوفاته بعضها…)تفريع علي الاصح لکن مبني علي ان الافضل في الوترالجماعة لاالمنزل …فقوله(اوترمعه…)اي علي وجه الافضلية
تيسری جگہ(2/599)ہے:
امالوتخلف منها رجل من افراد الناس وصلي في بيته فقدترک الفضيلة
۷۔حنبلی امام کی اقتداءمیں رکوع کےبعدحنفی مقتدی کواپنی دعائےقنوت پڑھنی چاہیےتاہم اگروہ خاموش رہےیاصرف امین کہتارہےتواس کی بھی گنجائش ہے۔
في الشامية:2/538
وياتي الماموم بقنوت الوترولوبشافعي يقنت بعدالرکوع لانه مجتهدفيه قوله: (وياتي الماموم الخ)هذا من المسائل الخمس الآتية التي يفعلها الموتم ان فعلها الامام….قال ابويوسف يسن ان يقرءالمقتدي ايضاوهو المختار..وقال محمدلايقرء بل يومن…قوله(بشافعي الخ)اي ويقنت بدعاء الاستعانة لادعاالهداية الذي يدعوبه امامه
نوٹ:ابوبکررازی ؒکےقول کامطلب بعض حضرات نےیہ لیاہےکہ’’امام کےسلام پھیرنےکےبعد مقتدی اپنی ایک رکعت انفرادی پوری کرےگا‘‘جبکہ علامہ شامیؒ کاخیال یہ ہےکہ یہ قول’’العبرۃلرای الامام لالرائی المقتدی‘‘پرمبنی ہےجیساکہ ان کی مذکورہ عبارت سےمعلوم ہوتاہے،ہمارارجحان بھی علامہ شامیؒ کی طرف ہے،کیونکہ ابوبکررازیؒ کی ذکرکردہ تعلیل’’لان امامہ لم یخرج بسلامہ عندہ وہو مجتہدفیہ‘‘ کی روسےجب امام اپنے سلام کی وجہ سےاپنی نماز سےخارج نہیں ہوا توامام اپنی ایک رکعت انفراداً کیونکرپوری کرےگا۔
برائے مولانا عثمان صاحب دامت برکاتہم العالیہ
1.ہمارا جواب حضرت ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی’’ مسنون حج وعمرہ‘‘ میں مندرجہ عبارت کے مخالف نہیں ،کیونکہ ضرورت کے موقع پر ہم نے بھی وتروں میں حنفی کے لئے شافعی، حنبلی کی اقتدا کو درست کہا ہے، لیکن ہم نے مواقع ضرورت کی تعیین نہیں کی۔اور’’ مسنون حج وعمرہ‘‘ میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں وتروں میں حنفی کیلئے شافعی، حنبلی کی اقتدا کو درست کہا ہے۔گویا مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مواقع ضرورت کی تعیین کردی،لہذا ہمارے فتوے میں اور حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں کچھ تعارض نہیں۔
2.آپ کا خیال یہ ہے کہ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی طرح تمام خلیجی ممالک میں ضرورت کا تحقق ہے، لہذا تمام خلیجی ممالک میں اجازت ہونی چاہیے،جبکہ میرا خیال یہ ہے کہ تمام خلیجی ممالک میں ضرورت کا تحقق ایک دعوی ہے جو معتدبہ سروے کے بغیر قابل تسلیم نہیں۔مسجد الحرام اور مسجد نبوی جوکہ مخصوص مقامات ہیں اور لوگوں کو وہاں آنا جانا بکثرت ہے، اس لیے ان دو مقامات پر ضرورت کے تحقق کو ثابت کرنے کے لیے کسی خاص سروے کی ضرورت نہیں۔ پھر آج حالات کچھ ہیں ،کل کو کچھ ہوں گے ،ہم اپنا فتویٰ بدلتے رہیں گے، اس لحاظ سے علی الاطلاق تمام خلیجی ممالک میں وتروں میں اقتدا کی اجازت دینا غیر مناسب ہے، جہاں ضرورت کا تحقق ہوگا، وہاں ہمارے فتوی میں بھی گنجائش ہے۔
3.ابوبکر رازی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا متعدد حضرات نے یہ مطلب ذکر کیا ہے’’ کہ امام کے دو رکعتوں پر سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت انفرادا پوری کرلے‘‘ملاحظہ ہوفتوی میں مذکور فتح القدیر اور علامہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت ۔
جبکہ ہمارے خیال میں وہ ابوبکر رازی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا یہ مطلب لینا درست نہیں، اس لیے نوٹ کے تحت بعض حضرات کا کہہ کر ہم نے اس کی تردید کی ہے، کیونکہ امام ابوبکر رازی رحمۃ اللہ علیہ کی ذکر کردہ تعلیل کے مطابق جب امام اپنے سلام کی وجہ سے نماز سے خارج نہیں ہوا تو مقتدی اپنی نماز تنہا کیوں کر پوری کرے گا؟
اور بحرالعلوم نے ابوبکر رازی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کا جو مطلب لیا ہے ہمارے خیال میں وہ بھی درست نہیں ،کیونکہ بحر العلوم کے مطلب کے مطابق مقتدی کی رائے میں بھی امام اپنی نماز سے خارج نہیں ہوااور امام اپنی رائے میں تو خارج ہوا ہی نہیں تھا ،جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقتدی اور امام دونوں کی رائے کے مطابق اقتدا درست ہونی چاہیے۔
بحرالعلوم کی مذکورہ بات جہاں دیگر تمام عبارات کے مخالف ہے ،وہاں ان کی ذکر کردہ دلیل بھی مضبوط نہیں ۔
بات کو مزید بھی کھولا جاسکتا ہے، لیکن امید ہے کہ اس میں کفایت ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved