• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

حضور ﷺ کے والدین کے متعلق سوال

  • فتوی نمبر: 15-75
  • تاریخ: 11 مئی 2024

استفتاء

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آباؤ اجداد، دادا اور خصوصاوالدین کے ایمان کے بارے میں صحیح رائے کیا ہے؟

آج کل لوگ اس مسئلے کے حوالے سے بہت بات کرتے ہیں اور دو انتہائی سخت مخالف مؤقف سننے کو ملتے ہیں۔ برائے مہربانی اہل سنت والجماعت کے موقف کے حوالے سے رہنمائی کیجئے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ایمان کے بارے میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں اور اس کی بنیاد روایات کا اختلاف ہے ۔حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ اکبر میں لکھا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا انتقال حالت کفر میں ہوا اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ میں نے اپنی والدہ کے لئے استغفار کی اجازت مانگی تو اللہ تعالی نے اجازت نہیں دی۔ مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے والد کہاں ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم میں ،جب وہ چلے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کر کہا کہ میرے اور تمہارے والد جہنم میں ہیں۔ان روایات سے  معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ وسلم کے والدین کا حالت کفر میں ہی انتقال ہوا جبکہ دوسری جانب ایک  روایت میں یہ بھی ہے اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو زندہ کیا اور وہ حضور صلی علیہ وسلم پر ایمان لائے پھر انتقال ہوگیا۔

یہ ممکن ہے کہ اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا موت کے بعد بھی ایمان معتبر مانا۔روایات میں تطبیق علامہ شامی ؒنے یوں کی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کا انتقال تو حالت کفر پر ہوا اور کافر جہنم میں ہوتا ہے۔ اس ضابطے کے تحت ان کا جہنم میں داخل ہونا ہی سمجھ میں آتا ہے لیکن اللہ تعالی نے بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کو مشرف بہ اسلام کر کے جنت میں داخل کر دیا۔

یہ تو اس مسئلے کی علمی تحقیق ہے ،لیکن بہت سے اکابرین احناف نے اس مسئلے میں لب کشائی کو سوء ادب کہا ہے اور اس بارے میں سکوت اور توقف کو ترجیح دی ہے کیونکہ یہ مسئلہ ایسا نہیں جس پر عمل موقوف ہو اور نہ ہی ایسا ہے کہ جس کا عقیدہ رکھنا کچھ ضروری ہو ،کیونکہ قبر و حشر میں اس کا کوئی سوال نہیں کیا جائے گا۔

فی الشامیة:4/348

انه لاینبغی ذکرهذه المسئلة الامع مزید الادب ولیست من المسائل التی یصرجهلها او یسال عنها فی القبر او فی الموقف فحفظ اللسان عن التکلم فیها الابخیر اولی واسلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved