- فتوی نمبر: 19-278
- تاریخ: 23 مئی 2024
- عنوانات: عبادات > زکوۃ و صدقات
استفتاء
HPکی طرف سےہر سال باقاعدگی سے زکوۃ اداکرنے کی ترتیب ہے ۔ زکوۃ کی ادئیگی کے لیے HPکے ڈائر یکٹر کی طرف سے 2010سے بزنس شروع کرتے ہی اس سال یکم رمضان تاریخ مقررکی گئی ہے،یکم رمضان تاریخ مقررکرنےکاشرعاکیا حکم ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
زکوۃ کے لیے اپنے پاس سے تاریخ مقرر کرنا درست نہیں بلکہ چاندکی جس تاریخ کوآدمی صاحب نصاب بناہو وہی تاریخ زکوۃ کی تاریخ ہے ،لہذامذکورہ صورت میں اگر صاحب نصاب بننے کی تاریخ یکم رمضان ہے توزکوۃ کے لیے یکم رمضان کومقرر کرنا درست ہے اور اگر صاحب نصاب بننے کی تاریخ یکم رمضان کے علاوہ ہے تو وہی تاریخ زکوۃکی تاریخ ہوگی ،اسے چھوڑکر یکم رمضان کو مقرر کرنا درست نہ ہوگا۔ البتہ اگر وہ تاریخ یاد نہ ہو اور نہ اس کے بارے میں کوئی اندازہ (ظن غالب) لگایا جاسکتاہو تو پھر یکم رمضان طے کرسکتےہیں۔
الدررالمحتار (3/266) میں ہے :
(وحولها ) أي الزكاة ( قمري ) بحر عن القنية( لا شمسي ) قال ابن عابدين: وأجل سنة قمرية بالأهلة على المذهب وهي ثلاثمائة وأربع وخمسون وبعض يوم وقيل شمسية بالأيام وهي أزيد بأحد عشر يوما اه ثم إن هذا إنما يظهر إذا كان الملك في ابتداء الأهلة فلو ملكه في أثناء الشهر قيل يعتبر بالأيام وقيل يكمل الأول من الأخير ويعتبر ما بينهما بالأهلة نظير ما قالوه في العدة ط
فقہی مقالات ازمفتی تقی عثمانی صاحب 3/162 میں ہے :
”اگر(زکوۃکی) تاریخ یاد نہیں ہے توپھر گنجائش ہے کہ رمضان المبارک کی کوئی تاریخ مقررکرلے ، البتہ احتیاطا زیادہ ادا کدے تاکہ تاریخ کے آگے پیچھےہونے کی وجہ سےجو فرق ہوگیا ہووہ بھی پورا ہوجائے۔”۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved