استفتاء
ہماری مسجد کے امام صاحب کی تنخواہ 6000 روپے ہے انتظامیہ نے ہمارے محلہ کے سب لوگوں کو کہہ رکھا ہے کہ ہر ماہ امام صاحب کی تنخواہ کے لیے ہر گھر 100 روپے دے گا جس کو سب نے منظور کر لیا۔ اب تنخواہ اکٹھی کرتے وقت بہت سے لوگ بادل نخواستہ وہ پیسے دیتے ہیں تو اسی طرح عید، بقر عید کے موقع پر جو لوگ عید نماز پڑھنے آتے ہیں ہر کسی سے 200 روپے امام صاحب کے لیے وصول کیے جاتے ہیں وہ بھی بہت سے لوگ طیب خاطر سے نہیں دیتے تو کیا لوگوں سے اس طرح تنخواہ یا خدمت کے لیے روپے وصول کرنا درست ہے۔جبکہ امام صاحب کا کوئی اور ذریعہ معاش بھی ایسا نہیں کہ اس سے خرچ کی کفالت ہو سکے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جب بستی والوں نے امام کو خود رکھا ہے اور سب نے فی گھر 100 روپے دینا منظور کیا ہے تو اس صورت میں امام کی تنخواہ کے لیے اس طرح روپے وصول کرنا درست ہے۔
قال في الدر المختار مع شرحه: و لا تصح الإجارة لأن الطاعات مثل الأذان و الحج و الإمامة و تعليم القرآن و الفقه و يفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن و الفقه و الإمامة و الأذان و يجبر المستأ جر على دفع ما قيل فيجب المسمى يعقد و أجر المثل إذا لم تذكر مدة. (شامى: 9/ 94 )
لو استأجر أهل القرية استاذاً أو معلماً أو مؤذناً و أوفى خدمته يأخذ أجرته من تلك أهل القرية. ( شرح المجلة: 2/ 270 )
© Copyright 2024, All Rights Reserved