استفتاء
جب کسی آبادی میں ایک صاحب جو حافظ قرآن، عالم دین، متبع سنت و شریعت اور تجوید و قراءت میں سند یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم یافتہ بھی ہو اور تقریباً عرصہ دس سال سے با قاعدگی کے ساتھ بلا معاوضہ تراویح سنا رہا ہو اور مسجد انتظامیہ اور جملہ نمازی ان سے پوری طرح مطمئن اور خوش ہوں، لیکن اس کے مقابلہ میں ایک نو عمر حافظ قرآن جو نماز پنجگانہ اور تراویح کے ضروری مسائل سے بھی کما حقہ واقف نہ ہو، نیز مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے میں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہو، کو امام تراویح متعین کرنے کے لیے کہا جا رہا ہو، تو اس صورت میں دونوں میں سے کون نماز تراویح کی امامت کا اخلاقاً و شرعاً حقدار ہے؟ اور کسے ترجیح دے کر امام مقرر کیا جائے؟ شرعی طور پر آگاہ فرمایا جائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں وہ صاحب جو عرصہ دس سال سے تراویح پڑھا رہے ہیں اور حافظ، قاری، عالم بھی ہیں اور متبع سنت بھی ہیں اور انتظامیہ بھی ان سے راضی ہے وہ تراویح کی امامت کے لیے زیادہ مستحق ہیں۔
الأولی بالإمامة أعلمهم بأحكام الصلاة هكذا في المضمرات و هو الظاهر هكذا في البحر الرائق هذا إذا علم من القراءة قدر ما تقوم به سنة القراءة. (هندية: 1/ 83)
© Copyright 2024, All Rights Reserved