• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا اسلامی ریاست میں غیر مسلم سودی کاروبار کرسکتے ہیں؟

استفتاء

کیا اسلامی ریاست میں غیر مسلم  آپس  میں سودی کاروبار کرسکتے ہیں؟میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے زمانے میں  مدینہ کے یہودیوں کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ سودی کاروبار کریں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو بھی سودی کاروبار کی اجازت نہیں ہے ،مدینہ کے یہودیوں کا حوالہ مفید نہیں ہے اس لیے کہ وہ اسلامی ریاست کے شہری نہ تھے بلکہ حلیف تھے  یا مخصوص چیزوں کی حد تک معاہدے میں شامل تھے ۔

فتح القدیر لابن الہمام (3/364) ط:رشیدیہ میں ہے:

إنهم إلتزموا أحكامنا في المعاملات بل ليسوا ملتزمين بعقد الذمة ما يعتقدون خلافه منها إلا ما شرط عليهم ولذا لا نمنعهم من بيع الخمر والخنزير ونكاح المحارم…………… ولم نؤمر بإلزامهم بل نتركهم وما يدينون فصار أهل الذمة أولى من أهل الحرب بذلك لأن المانع فيهم المنعة الحسية وأمرنا بهدمها والمانع في أهل الذمة المنعة الشرعية وأمرنا بتقريرها بخلاف الربا لأنه مستثنى من عقودهم قال صلى الله عليه وسلم ألا من أربى فليس بيننا وبينه عهد روى معناه القاسم بن سلام بسنده في كتاب الأموال عن أبي المليح الهذلي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صالح أهل نجران فكتب لهم كتابا وساقه وفيه ولا تأكلوا الربا فمن أكل منهم الربا فذمتي منهم بريئة وفي مصنف ابن أبي شيبة بسنده إلى الشعبي كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى نجران وهم نصارى أن من بايع منكم بالربا فلا ذمة له وهو مرسل وهو حجة عندنا

سيرة ابن هشام ط: دار الكتاب العربي  (2/ 143) ميں ہے:

قال ابن إسحاق: وكتب رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا بين المهاجرين والأنصار، وادع فيه يهود وعاهدهم، وأقرهم على دينهم وأموالهم، وشرط لهم، واشترط عليهم ……. (وفيه )وإنه من تبعنا من يهود فإن له النصر والأسوة، غير مظلومين ولا متناصرين عليهم………. (وفيه ) وإن بينهم النصر على من حارب أهل هذه الصحيفة، وإن بينهم النصح والنصيحة…….. (وفيه ) وإنه لا تجار قريش ولا من نصرها، وإن بينهم النصر على من دهم يثرب، وإذا دعوا إلى صلح يصالحونه ويلبسونه، فإنهم يصالحونه ويلبسونه، وإنهم إذا دعوا إلى مثل ذلك فإنه لهم على المؤمنين، إلا من حارب في الدين

تاریخ اسلام حصہ دوم ص 91 ( مولانا محمد میاں صاحب رحمہ اللہ ) میں ہے :

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک معاہدہ کر لیا تھا جس کا حاصل یہ تھا :

یہود کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔

یہود اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔

یہود یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک دوسرے کی مدد کریں گے ۔

مدینہ پر حملہ ہوا تو دونوں فریق ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔

کسی دشمن سے اگر ایک فریق صلح کرے گا تو دوسرا بھی اس صلح میں شریک ہو گا ۔

کوئی فریق قریش کو امن نہیں دے گا۔

مسلمانوں کی اگر کوئی جنگ ہوگی تو یہودی بھی خرچ میں شامل رہیں گے۔

مظلوم کی امداد کی جائے گی۔

اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے جس سے باہمی فساد کا خوف ہو تو اس کا آخری فیصلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved