• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

جھوٹے اقرار کی وجہ حرمت مصاہرت کا مسئلہ

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ سارا معاملہ یہ جملے کہنے والے شخص کی بیوی کے علم میں آچکا ہے، اور بیوی حرمت کے معاملہ میں قاضی کی طرح ہوتی ہے۔ لہذا وہ شوہر کے کیے ہوئے اقرار کو غلط نہیں مان سکتی، بلکہ درست سمجھے گی، اور اپنے آپ کو شوہر کے لیے حرام سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ آئندہ کبھی نہیں رہ سکتی۔

وفي الخلاصة: قيل له ما فعلت بأم امرأتك، فقال: جامعتها تثبت الحرمة، ولا يصدق أنه كذب، ولو هازلاً.  (الدر المختار: 4/121)

وقال الشامي تحت قوله (ولا يصدق أنه كذب … إلخ) أي عند القاضي، أما بينه وبين الله تعالى إن كان كاذباً فيما أقرّ لم تثبت الحرمة، وكذا إذا أقرّ بجماع أمها قبل التزوج، لا يصدق في حقها، فيجب كمال المسمى لو بعد الدخول ونصفه لو قبله. (4/122)

وقال الطحطاوي تحت قوله (في الخلاصة): قال في الهندية: لو أقرّ بحرمة المصاهرة يؤاخذ به، ويفرق بينهما، وكذلك إذا أضاف ذلك إلى ما قبل النكاح بأن قال لامرأته: كنت جامعت أمك قبل نكاحك، يؤاخذ به، ويفرق بينهما، ولكن لا يصدق في حق المهر، حتى يجب المسمى، والإصرار على هذا الإقرار ليس بشرط، حتى لو رجع عن ذلك وقال كذبت، فالقاضي لا يصدقه، ولكن فيما بينه وبين الله تعالى إن كا كاذباً فيما أقرّ لا تحرم عليه امرأته. (طحطاوي على الدر: 2/18).

احسن الفتاویٰ میں ہے:

’’سوال: ایک عورت نے اپنے خسر پر الزام لگایا کہ اس نے بری نیت سے اس کو پکڑ کر معانقہ کیا، اور رخسار پر بوسہ دیا، اور پستانوں سے پکڑا، اس عورت کے شوہر سے دریافت کیا گیا تو اس نے پہلے کہا کہ اس کی بیوی سچ کہتی ہے، مگر چند روز کے بعد کہتا ہے کہ میں نے اس معاملہ کی تحقیق کی تو ثابت ہوا کہ بیوی کا الزام غلط ہے، اس صورت میں اس شخص پر اس کی بیوی حرام ہو گی یا نہیں؟

الجواب: قال في الهندية قال لامرأته: كنت جامعت أمك قبل نكاحك، يؤاخذه به ويفرق بينهما، ولكن لا يصدق في حق المهر، حتى يجب المسمى دون العقر، والإصرار على هذا الإقرار ليس بشرط، حتى لو رجع عن ذلك وقال كذبت، فالقاضي لا يصدقه، ولكن فيما بينه وبين الله تعالى إن كا كاذباً فيما أقرّ لا تحرم عليه امرأته. وذكر محمد رحمه الله تعالى في كتاب النكاح: إذا قال الرجل لامرأته: هذه أمي من الرضاعة ثم أراد أن يتزوجها بعد ذلك، فقال أخطأت في ذلك، فله أن يتزوجها استحساناً، ووجه الفرق بينهما أنه ههنا أخبر عن فعله، والخطأ فيما هو فعله نادر فلا يصدق فيه، وأما في الرضاع، فما أخبر عن فعل نفسه في زمان يتذكره وهو إنما سمع من غيره، والخطأ فيه لهس بنادر، كذا في التجنيس والمزيد(عالمگیریہ: 1/275)۔

اس عبارت سے ثابت ہوا کہ اقرار رضاع کی دوبارہ تصدیق سے قبل اس سے قولاً یا فعلاً رجوع صحیح ہے، اور حرمت مصاہرت کے اقرار سے رجوع صحیح نہیں، مگر جو وجہ الفرق بیان کی گئی ہے، اس سے  ثابت ہوتا ہے کہ اقرار حرمت مصاہرت سے عدم صحت رجوع کا قاعدہ کلیہ نہیں، بلکہ اس سے صرف ایسی حرمت مصاہرت مراد ہے جو خود فعل مقر کی وجہ سے ہو، اور اگر حرمت فعل غیر سے متعلق ہو جیسا کہ صورت سوال میں ہے تو اس کا حکم اقرار رضاع کی طرح ہونا چاہیے۔ لاشتراك علة الخفا ، فقط الله تعالى أعلم ‘‘. (5/91)………………………… فقط و الله تعالى أعلم

جواب دیگر:

مذکورہ صورت میں شوہر نے اپنے سسر کو جو میسج بھیجا ہے یعنی یہ کہ

 ’’تیری بیوی کو ہم نے چودا ہے‘‘

اس میسج میں شوہر کا اپنی ساس سے صحبت کرنے  کا اقرار ہے، جو کہ  شوہر کے بقول ایک جھوٹا اقرار ہے۔

اگر شوہر اپنی ساس سے صحبت کرنے کا جھوٹا اقرار کرے، تو اس سے دیانتاً حرمت  مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ البتہ قضاءً حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔ بیوی قضاء کے مسائل میں بمنزلہ قاضی کے ہوتی ہے، لہذا اس اقرار کا علم اگر بیوی کو بھی ہوجائے تو بیوی کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔

وفي الخلاصة: قيل له ما فعلت بأم امرأتك، فقال: جامعتها تثبت الحرمة، ولا يصدق أنه كذب، ولو هازلاً.  (الدر المختار: 4/121)

وقال الشامي تحت قوله (ولا يصدق أنه كذب … إلخ) أي عند القاضي، أما بينه وبين الله تعالى إن كان كاذباً فيما أقرّ لم تثبت الحرمة، وكذا إذا أقرّ بجماع أمها قبل التزوج، لا يصدق في حقها، فيجب كمال المسمى لو بعد الدخول ونصفه لو قبله. (4/122)

وقال الطحطاوي تحت قوله (في الخلاصة): قال في الهندية: لو أقرّ بحرمة المصاهرة يؤاخذ به، ويفرق بينهما، وكذلك إذا أضاف ذلك إلى ما قبل النكاح بأن قال لامرأته: كنت جامعت أمك قبل نكاحك، يؤاخذ به، ويفرق بينهما، ولكن لا يصدق في حق المهر، حتى يجب المسمى، والإصرار على هذا الإقرار ليس بشرط، حتى لو رجع عن ذلك وقال كذبت، فالقاضي لا يصدقه، ولكن فيما بينه وبين الله تعالى إن كا كاذباً فيما أقرّ لا تحرم عليه امرأته. (طحطاوي على الدر: 2/18).

لیکن یہ تفصیل زبانی اقرار کے بارے میں ہے۔

مذکورہ صورت میں اقرار زبانی نہیں ہے، بلکہ صرف تحریری ہے۔ اور تحریر بھی غیر مرسوم ہے۔ اگر اقرار صرف تحریری ہو بالخصوص جبکہ تحریر بھی غیر مرسوم ہو، تو کیا اس صورت میں بھی قضاءً حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی یا نہیں؟

معتد بہ تلاش کے باوجود اس بارے میں کوئی صریح عبارت نہیں ملی۔ مندرجہ ذیل دو وجوہ سے ہمارے خیال میں مذکورہ صورت میں قضاءً بھی حرمتِ مصاہرت ثابت نہ ہو گی۔

1۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ حرمت ثابت کرنے میں تحریر زبان کے مقابلہ میں ایک کمزور ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے ضرورت اور حاجت کے مقام میں تحریر زبان کے قائم مقام ہوتی ہے۔ ہر حال میں زبان کے قائم مقام نہیں ہوتی۔ چنانچہ مکرہ کی زبانی طلاق تو معتبر ہوتی ہے، لیکن تحریری طلاق معتبر نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا ، كذا في الخانية ، ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة .(رد المحتار: 4/427)

مکرہ کا اقرار بالطلاق اور  اقرار بالطلاق کاذباً میں ایک گونہ مشابہت بھی ہے۔ چنانچہ شامی میں ہے:

وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلاً أو كاذبا فقال في البحر: إن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانةً، ثم نقل عن البزازية والقنية: لو أراد به الخبر عن الماضي كذباً لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضاً اه.

ويمكن حمل ما في الخانية على ما إذا أشهد على أنه يقر بالطلاق هازلاً، ثم لا يخفى أن ما مر عن الخلاصة إنما هو فيما لو أنشأ الطلاق هازلاً، وما في الخانية فيما لو أقر به هازلاً، فلا منافاةبينهما.قال في التلويح: وكأنه يبطل الاقرار بالطلاق والعتاق مكرهاً كذلك يبطل الاقرار بهما هازلاً، لان الهزل دليل الكذب كالاكراه، حتى لو أجاز ذلك لم يجز. (4/431)

2۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ غیر مرسوم تحریر، مرسوم تحریر کے مقابلہ میں ایک کمزور ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے طلاق کی مرسوم تحریر میں بغیر نیت کے بھی طلاق ہو جاتی ہے، جبکہ غیر مرسوم تحریر میں نیت کے بغیر طلاق نہیں ہوتی۔ چنانچہ فتاویٰ شامی میں ہے:

الكتابة على نوعين: مرسومة، وغير مرسومة.

ونعني بالمرسومة أن يكون مصدرا ومعنونا مثل ما يكتب إلى الغائب، وغير المرسومة أن لا يكون مصدرا ومعنونا، وهو على وجهين: مستبينة، وغير مستبينة فالمستبينة ما يكتب على الصحيفة والحائط والارض على وجه يمكن فهمه وقراءته، وغير المستبينة ما يكتب على الهواء والماء وشئ لا يمكن فهمه وقراءته، ففي غير المستبينة لا يقع الطلاق وإن نوى، وإن كانت مستبينة لكنها غير مرسومة إن نوى الطلاق يقع، وإلا لا، وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو. (4/442)

ممکن ہے کہ مندرجہ ذیل حوالہ جات سے بھی کچھ تائید ہو۔

1۔ وإن كتب الصك بنفسه بين قوم ولم يقرأ عليهم ولم يقل: اشهدوا علي، ذكر في الكتاب أنه لا يكون إقراراً… وقال القاضي الإمام أبو علي النسفي رحمه الله إن كان المكتوب مصدراً مرسوماً، نحو أن يكتب: بسم الله الرحمن الرحيم، هذا ما أقر فلان بن فلان على نفسه لفلان بألف درهم، وعلم الشاهد بما فيه، وسعه أن يشهد بالمال المكتوب، وإن لم يقرأ عليهم ولم يشهدهم. (قاضي خان على هامش الهندية: 3/127).

  1. وكل ما عرف في الإقرار فهو في الطلاق والعتاق كذلك، إلا في الحدود والقصاص. (قاضي خان على هامش الهندية: 3/127).

مزید ایک تحریر:

اپنے سسر کو بھیجے گئے میسج میں شوہر کے اس جملے میں کہ

 ’’تیری بیوی کو ہم نے چودا ہے‘‘

امید ہے بخیر و عافیت ہونگے۔ آپ سے حرمت مصاہرت سے متعلقہ جو سوال پوچھا تھا اس کی تفاصیل کچھ یوں ہیں کہ شوہر نے پہلے مندرجہ ذیل  میسج اپنے سسر کو بھیجا:

"تیری بیوی کو ہم نے چودا ہے، بدنام کرونگا ،کوئی میرا لن بهی نہیں اکهاڑ سکتا، جهوٹی تیری رنڈی بیوی ہے، ارے اتنانہیں تیری بیوی میرا لنڈ بهی چوستی تهی، میں نے اسکی ننگی ویڈیو بنائی تهی ایک ایک کو دکهاؤنگا”

اس پر سسر نے یہ جواب دیا:

"جھوٹےپراللہ کی لعنت ہےاللہ پاک اسکواورالزام لگانےوالےکوتباۂبربادفرماوےآمین”

اس پر شوہر نے دوبارہ میسج بھیجا:

"تیری رنڈی بیوی پر لعنت ہو الله پاک کی اور تجھ پر جهوٹی باتوں پہ یقین کرتاہے شرم کر ویڈیو سب کو دکهاؤنگا،اس رنڈی کی بهدی تیرے گلے میں ڈالونگا”

اور یہ تمام بات بیوی کے علم میں آ چکی ہے ۔ اور صلح کے بعد شوہر یہ کہتا ہے کہ ایسا کبھی کچھ نہیں ہوا ،میں نے یہ سب غصے میں کہا تھا۔ اور اس چیز کا عدم وقوع تقريبا سو فیصد ہے۔ کیونکہ ساس بوڑھی عورت ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر نے اپنے سسر کو جو میسج بھیجا ہے یعنی یہ کہ

اپنی ساس سے صحبت کا اقرار ہے، جو کہ بقول شوہر کے ایک جھوٹا اقرار ہے۔

اگر شوہر اپنی ساس سے صحبت کرنے کا جھوٹا اقرار کرے، تو اس سے دیانتاً حرمت  مصاہرت ثابت نہیں ہوئی۔ البتہ قضاءً حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ اس اقرار کا عام شوہر کی بیوی کو بھی ہو چکا ہے، اور قضاء کے مسائل میں عورت بمنزلہ قاضی کے ہو تی ہے۔ لہذا مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی۔

البتہ یہ اقرار چونکہ صرف تحریری اقرار ہے۔ اور تحریری اقرار، زبانی اقرار کے قائم مقام حاجت اور ضرورت کے موقعہ پر ہوتا ہے۔ اور مذکورہ صورت میں اس تحریری اقرار کو زبانی اقرار کے قائم مقام بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں بیوی کے حق میں بھی حرمت مصاہرت ثابت نہ ہو گی۔

فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق، لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة، ولا حاجة ههنا، كذا في الخانية.

یہ عبارت اگرچہ ’’اکراہ‘‘ سے متعلق ہے، لیکن باعتبار علت کے ہماری مذکورہ صورت کو بھی شامل ہے۔ کیونکہ جس طرح مُکرَہ کے اقرار بالطلاق سے دیانۃً طلاق نہیں ہوتی اور قضاء ً ہو جاتی ہے، اسی طرح طلاق کے جھوٹے اقرار سے بھی دیانۃً طلاق نہیں ہوتی، البتہ قضاء ً طلاق ہو جاتی ہے۔ لہذا جس طرح زبانی اقرار میں دونوں کا حکم یکساں ہے، اسی طرح تحریری اقرار میں بھی دونوں کا حکم یکساں ہونا چاہیے۔ یعنی جس طرح  مُکرَہ تحریری اقرار کا اعتبار نہیں، اسی طرح جھوٹا تحریری اقرار بھی معتبر نہ ہونا چاہیے۔

شامی میں ہے:

وأما ما في إكراه الخانية: لو أكره على أن يقر بالطلاق فأقر لا يقع، كما لو أقر بالطلاق هازلاً أو كاذبا فقال في البحر: إن مراده لعدم الوقوع في المشبه به عدمه ديانةً، ثم نقل عن البزازية والقنية: لو أراد به الخبر عن الماضي كذباً لا يقع ديانة، وإن أشهد قبل ذلك لا يقع قضاء أيضاً اه.

ويمكن حمل ما في الخانية على ما إذا أشهد على أنه يقر بالطلاق هازلاً، ثم لا يخفى أن ما مر عن الخلاصة إنما هو فيما لو أنشأ الطلاق هازلاً، وما في الخانية فيما لو أقر به هازلاً، فلا منافاةبينهما.قال في التلويح: وكأنه يبطل الاقرار بالطلاق والعتاق مكرهاً كذلك يبطل الاقرار بهما هازلاً، لان الهزل دليل الكذب كالاكراه، حتى لو أجاز ذلك لم يجز. (4/431)

سسر کو جو میسج بھیجا ہے یعنی یہ کہ

 ’’تیری بیوی کو ہم نے چودا ہے‘‘

اس میسج میں شوہر کا اپنی ساس سے صحبت کرنے  کا اقرار ہے، جو کہ  شوہر کے بقول ایک جھوٹا اقرار ہے۔

اگر شوہر اپنی ساس سے صحبت کرنے کا جھوٹا اقرار کرے، تو اس سے دیانتاً حرمت  مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ البتہ قضاءً حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔ بیوی قضاء کے مسائل میں بمنزلہ قاضی کے ہوتی ہے، لہذا اس اقرار کا علم اگر بیوی کو بھی ہوجائے تو بیوی کے حق میں حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے۔

وفي الخلاصة: قيل له ما فعلت بأم امرأتك، فقال: جامعتها تثبت الحرمة، ولا يصدق أنه كذب، ولو هازلاً.  (الدر المختار: 4/121)

وقال الشامي تحت قوله (ولا يصدق أنه كذب … إلخ) أي عند القاضي، أما بينه وبين الله تعالى إن كان كاذباً فيما أقرّ لم تثبت الحرمة، وكذا إذا أقرّ بجماع أمها قبل التزوج، لا يصدق في حقها، فيجب كمال المسمى لو بعد الدخول ونصفه لو قبله. (4/122)

وقال الطحطاوي تحت قوله (في الخلاصة): قال في الهندية: لو أقرّ بحرمة المصاهرة يؤاخذ به، ويفرق بينهما، وكذلك إذا أضاف ذلك إلى ما قبل النكاح بأن قال لامرأته: كنت جامعت أمك قبل نكاحك، يؤاخذ به، ويفرق بينهما، ولكن لا يصدق في حق المهر، حتى يجب المسمى، والإصرار على هذا الإقرار ليس بشرط، حتى لو رجع عن ذلك وقال كذبت، فالقاضي لا يصدقه، ولكن فيما بينه وبين الله تعالى إن كا كاذباً فيما أقرّ لا تحرم عليه امرأته. (طحطاوي على الدر: 2/18).

لیکن یہ تفصیل زبانی اقرار کے بارے میں ہے۔

مذکورہ صورت میں اقرار زبانی نہیں ہے، بلکہ صرف تحریری ہے۔ اور تحریر بھی غیر مرسوم ہے،اور شوہر کی نیت بھی صرف پریشان کرنے کی ہے، حرمت کے انشاء کی نہیں۔ لہذا مذکورہ صورت میں قضاءً   بھی حرمت مصاہرت ثابت  نہ ہو گی۔

(1) الاشباه والنظائر میں ہے:

وأما الإقرار بها [أي بالكتابة] ففي إقرار البزازية: كتب كتاباً فيه إقرار بين يدي الشهود، فهذا على أقسام: الأول: أن يكتب، ولا يقول شيئاً، وأنه لا يكون إقراراً، فلا تحل الشهادة بأنه أقر. (الأشباه والنظائر مع شرحه للحموي: 3/123-124)

(2) تبیین الحقائق (6/218)  میں ہے:

ثم الكتاب على ثلاث مراتب مستبين مرسوم ، وهو أن يكون معنونا أي مصدرا بالعنوان ، وهو أن يكتب في صدره من فلان إلى فلان على ما جرت به العادة في تسيير الكتاب فيكون هذا كالنطق فلزم حجة ، ومستبين غير مرسوم كالكتابة على الجدران وأوراق الأشجار أو على الكاغد لا على وجه الرسم فإن هذا يكون لغوا لأنه لا عرف في إظهار الأمر بهذا الطريق فلا يكون حجة إلا بانضمام شيء آخر إليه كالنية والإشهاد عليه والإملاء على الغير حتى يكتبه لأن الكتابة قد تكون للتجربة ، وقد تكون للتحقيق . وبهذه الأشياء تتعين الجهة.

(3) فتاویٰ قاضی خان میں ہے:

وإن كتب الصك بنفسه بين قوم ولم يقرأ عليهم ولم يقل: اشهدوا علي، ذكر في الكتاب أنه لا يكون إقراراً… وقال القاضي الإمام أبو علي النسفي رحمه الله إن كان المكتوب مصدراً مرسوماً، نحو أن يكتب: بسم الله الرحمن الرحيم، هذا ما أقر فلان بن فلان على نفسه لفلان بألف درهم، وعلم الشاهد بما فيه، وسعه أن يشهد بالمال المكتوب، وإن لم يقرأ عليهم ولم يشهدهم. (قاضي خان على هامش الهندية: 3/127).

(4) دوسری جگہ ہے:

وكل ما عرف في الإقرار فهو في الطلاق والعتاق كذلك، إلا في الحدود والقصاص. (قاضي خان على هامش الهندية: 3/127)…………….. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved