استفتاء
اگر کسی گاؤں میں آبادی اور دیگر ضروریات زندگی کی تفصیل درج ذیل ہوتو جمعہ واجب ہے یا نہیں؟
۱۔کل آبادی 3650= ۷۔ مڈل سکول 1= ۱۳ ابتدائی طبی کلینک 2=
۲۔مساجد 12= ۸۔بوائز پرائمری سکول 4= ۱۴۔قبرستان4=
۳۔دکانیں 20= ۹۔گرلز پرائمری سکول2= ۱۵۔ موبی لنک پوسٹر1=
۴۔خشت بھٹی6= ۱۰۔پبلک سکول2= ۱۶۔ مستند علماء کرام22=
۵۔ڈیزل ایجنسی1= ۱۱۔اسلامی درسگاہیں3= ۱۷۔ حفاظ کرام200=
۶۔ ہائی سکول1= ۱۲۔ ٹیوب ویل 3= ۱۸۔لوہار،ترکھان، معمار وغیرہ موجود ہیں۔
چند وضاحتین اس طرح ہیں (۱) دکانیں مسلسل نہیں بلکہ صاحب دکان کے گھر سے متصل بیٹھک میں ہے۔(۲) شہرسے گاؤں تک 10 کلومیٹر پکی سڑک ہے جبکہ گاؤں کے اندر کوئی گلی پختہ نہیں،(۳) منڈی یا بازار کی کیفیت یا باہر سے آنے جانے والے تاجر نہیں بلکہ دکاندار شہرجاکر سودا لاتےہیں، (۴)چندافراد کی خودساختہ کمیٹی ہے جو مختلف تنازعات میں صلح صفائی کرتےہیں،(۵)مزید یہ ہے کہ جہاں تک تحقیقات جمعہ اور فتاویٰ جات یا درسیا ت میں اکابر سے جو کچھ منقول ہیں مثلاً۱۔ تعداد کے بارے میں تیرہ سو سے لے کر دس ہزار تک کے اقوال ہیں،۲۔ضروریات زندگی کا میسر ہونا وغیرہ۔۳۔عرفاًبڑاگاؤں ہونا یا بلد کی کیفیت ہونا ،غرض یہ کہ اس ترقی کی دورمیں ہر آبادی میں یہ بنیادی سہولتیں میسرہوتی ہے۔ تعداد کم ہو یا زیادہ تاہم جمعہ کے لیے بظاہر کتب فتاویٰ اور فقہ سے مجموعہ اور خلاصہ جو سمجھ میں آتاہے ۔ وہ کیفیت بلدیت ہے اور اس جیسے گاؤں میں کیفیت بلدیت نظر نہیں آتی۔ اکابر نے فتاویٰ جات میں 1300، 1500، 2000، 3000 تعداد پر جمعہ کے جواز کے جوابات دیے ہیں ممکن ہیں کہ اس قسم کی آبادی عام شاہراؤں پر ہو اور انہوں نے مشاہدہ کیا ہو عموماً شاہراؤں پر چھوٹی آبادی پر کیفیت بلدیت عیاں ہوتی ہے۔ لیکن شاہراؤں سے دور آبادی بعض مرتبہ تین چارہزار سے زیادہ ہوتی ہے ضروریات زندگی بھی میسر ہوتی ہیں مگر گاؤں پر شہریت کا رنگ نظر نہیں آتا۔ بہر حال آپ حضرات سے مدلل مفصل اور تسلی بخش جواب کی درخواست کی جاتی ہے تاکہ اتفاق واتحاد سے یہ مسئلہ حل ہوجائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
فقہائے حنفیہ کے نزدیک جمعہ واجب اور صحیح ہونے کے لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط اس جگہ کا شہر یا بڑی بستی ہونا ہے۔ لیکن شہر یا بڑی بستی کی تعریف میں فقہائے حنفیہ کے تقریباً نو قول ہیں جیساکہ ان کی تفصیل "بدائع الصنائع1/ 584 ” میں موجود ہے ۔ ان اقوال میں دو قول کو زیادہ راجح قرار دیا گیا ہے ان میں سے پہلا قول وہ ہے جو امام صاحب سے مروی ہے"وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدرعلى إنصاف المظلوم من الظالم بحكمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح”.(بدائع ،ص :585،ج:1) یعنی ایسی بستی ہو جس میں گلیاں ہوں محلے ہوں اور بازار ہو اور اس میں کوئی ایسا حاکم ہو جو مظلوم کو ظالم سے انصاف دلانے پر قادر ہو اپنے فیصلے کے ذریعے اور اپنے علم کے ذریعے یا کسی دوسرے کے علم کے ذریعے اور لوگ اپنے پیش آمدہ حالات وواقعات میں ان کی طرف رجوع کرتےہوں۔
اور دوسرا قول یہ ہے "المصر وهو مالايسع أكبرمساجده أهله المكلفين بها وعليه فتوي أكثر الفقهاء .. ..لظهور التواني في الأحكام”یعنی شہر اور بڑی بستی وہ جگہ ہے کہ جس کی سب سے بڑی مسجد میں اس جگہ کے تمام مکلفین (یعنی جن پر جمعہ فرض ہے) پورے نہ آسکیں۔
اگرچہ عام طور سے فقہاء نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے لیکن پہلا قول ایک تو اپنی تمام قیودات کے ساتھ پوراپورا اچھے خاصے بڑے بڑے قصبوں پر منطبق نہیں ہوتا اور دوسرے یہ کہ ہمارے دور میں بہت سی ایسی بستیوں میں جمعہ کا رواج ہوچکا ہے جو عموماً دوسرے قول کے مطابق تو بڑی بستی کہلا سکتی ہیں پہلے کے مطابق نہیں کہلا سکتی۔
اس لیے جس بستی پردوسرے قول کے مطابق بھی بڑی بستی کا اطلاق ہوسکتاہو خصوصاً ایسی بستی جس میں گلیاں محلے ہوں اور ضروریات کی تقریباً سب چیزیں ملتی ہوں ایسی بستی میں جمعہ قائم کرنا درست ہے۔ اور سوال میں آبادی کی جو صورت حال ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق دوسرے قول کے مطابق یہ بستی بڑی بستی کے حکم میں ہے اور اس میں جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved