• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

جس موبائل میں قران محفوظ ہو اس کو بیت الخلاء لے کر جانا

استفتاء

میں ایک مدرسہ کا مہتمم اور منتظم ہوں ہمارے مدرسے میں حفظ اوربنات کے شعبہ جات ہیں مدرسے کے اندر معلمین اور معلمات خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔زیادہ تر ادارے کا نظم ہم خود ہی کرتے ہیں ۔ہماراسونے کا کام ہے اور ہماری تین دکانیں ہیں ان دکانوں سے سالانہ جو زکوۃ نکلتی ہے اور جوصدقات وغیرہ ہوتے ہیںوہ مدرسے کے کھانے اور دیگر امور میں صرف ہوتے ہیں اب مدرسے کی ضروریات کے علاوہ ہمارے پاس جو رقم (ہماری ذاتی نکلی ہوئی زکوۃ )پڑی ہوئی ہے اس کو ہم اپنے کاروبار کے علاوہ کسی بااعتماد کاروباری شکل میں مثلا پراپرٹی وغیرہ )میں لگانا چاہتے ہیں ۔جس میں ہمارا ذاتی کوئی حصہ نہیں ہو گا ۔یہ صرف اس لیے ہے کہ پیسے پڑے ہوئے ہیں مدرسے اور ادارے کا فائدہ ہو جائے تو  آیا ایساکرنا جائز ہے یانہیں ؟

وضاحت مطلوب ہے کہ :

آپ کی اپنی زکوۃ کی رقم  آ پ کے اپنے پاس ہی ہے یا مدرسے کے نام سے بینک میں کسی اکائونٹ میں ہے ؟

جواب وضاحت :

مدرسے کے نام سے اگرچہ اکائونٹ موجود ہے تاہم اس میں عموما پیسے نہیں رکھے جاتے بلکہ اپنے پاس ایک تجوری الگ مدرسے کے نام سے رکھی ہوئی ہے ،اپنی زکوۃ کاحساب کر کے رقم اس تجوری میں ڈال دی جاتی ہے اسی طرح اپنے بیٹوں بیٹیوں  وغیرہ کی زکوۃ لے کر بھی اسی میں شامل کردی جاتی ہے ۔اسی میں سے مدرسے کے اخراجات چلتے رہتے ہیں ۔اس رقم کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لایا جاتا ۔اگر کل کو مہتمم صاحب کا انتقال ہو تا ہے تو یہ رقم ترکہ شمار نہیں ہو گی ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مہتمم صاحب اپنے پیسے جب زکوۃ کی نیت سے الگ کر کے تجوری میں ڈال دیتے ہیں تو ان کی زکوۃ ادا ہو جاتی ہے مہتمم صاحب یہاں بمنزلہ ولی یتیم کے ہیں ان کی اپنی زکوۃ اگرچہ عملا ان کے قبضے میں ہے مگر جب انہوں نے مدرسے کے عنوان سے جدا کر کے تجوری میں ڈال دی تو مدرسے کے قبضے میں داخل ہو گئی ۔اور دوسروں کی زکوۃ بھی ان کے قبضے میں  آنے سے ادا ہو جاتی ہے ۔اسی طرح دونوں قسم کی رقوم مدرسے کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہیں تاہم یہ رقوم چونکہ زکوۃ کی ہیں اس لیے ان کا مصرف زکوۃ کا مصرف ہے ۔

اگران رقوم کو مدرسے کی مصلحت سے کاروبار میں لگانا چاہیں تو اس کی گنجائش ہے البتہ یہ اطمینان کرناضروری ہے کہ مدرسے کی رقم ڈوبے گی نہیں ۔جس کی صورت یہ ہے کہ رقم کسی بااعتماد شخص کے ہاتھ میں دی جائے پھر ان سے بصورت وفات وغیرہ واپسی کے لیے چیک یا ضمانت کے طور پر کچھ لے لیا جائے اور وہ بھی اس رقم کو ایسی جگہ لگائیں جہاں رقم کا تحفظ مقدم ہو چاہے نفع کسی قدر کم ہو۔ اگر رقم ڈوبے گی تو کوتاہی کی صورت میں مہتمم صاحب اس کے ذمہ دار ہوں گے چاہے متعلقہ بندے سے لے کردیں یا اپنی جیب سے ادا کریں

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved