- فتوی نمبر: 7-262
- تاریخ: 15 جولائی 2015
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان
استفتاء
مفتی صاحب میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے والدین نے میری شادی جہاں کی تھی، وہ لوگ اعتماد میں لے کر ہمیں چاپلوسی کے ساتھ ہم سے رشتہ لیا، اور پھر جلد ہی نکاح کر لیا، پھر مجھے ایک ہفتہ وہاں پہ رکھا، اور اچانک بہانہ کر کے مجھے میرے گھر چھوڑ گیا، پھر پیچھے سارے راستے بند کر دیے، نہ فون پر بات چیت ہے، نہ پیچھے گھر کا اتا پتہ ہے۔ مجھے دو سال ہو گئے ہیں نکاح ہوئے، لیکن کوئی پتا نہیں، کوئی جان پہچان بھی نہیں ہماری کسی سے، یہ رشتہ کسی رشتے والے نے لایا تھا، اس نے گھر والوں کو اپنے اعتماد میں لیا، بتایا لڑکا بہت شریف ہے، گھر اچھا ہے، کوئی عیب نہیں، گھر والوں نے میرا نکاح کر دیا، میرا بھائی اہلحدیث ہے، وہاں بیرون ملک رہتا ہے، اس نے جان پہچان کیے بغیر رشتے والوں کی باتوں میں آ کر میری شادی کر دی، امی نے منع کیا بولا کہ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا، تو بھائی ناراض ہو گیا، کہ اتنا عرصہ سے گھر بیٹھی ہے، آپ لوگوں کی باتوں میں آتے ہوں، ان کی باتوں میں نہ آؤ، اللہ پر بھروسہ کرو، اور رخصت کر دو۔
اس لڑکے نے قانوناً تو نکاح نہیں پڑھوایا تھا، لیکن منہ سے اقرار کیا تھا، اور مجھے اس سارے مسئلے کا بالکل بھی نہیں پتا تھا، جب میرا نکاح ہو گیا، تو بعد میں پتا چلا کہ نکاح کیسے ہوا؟ پھر اس لڑکے نے مجھے اپنے منہ سے ہی پہلی رات بتایا کہ وہ شراب پیتا ہے، ڈکیتی کرتا ہے، بُرے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا ہے، اس کا دوست سمگلر ہے جو لڑکی کو پھنساتا ہے، اور بیرون ملک بیج آتا ہے، بس وہ لڑکا اچانک سے مجھے چھوڑ گیا، جن لوگوں سے پتہ کیا وہ لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہیں جانتے، بس بولتے ہیں کہ یہاں جو بیاہ کر لڑکیاں لاتے ہیں تو کچھ دنوں کے لیے کرایہ پر گھر لیتے ہیں، ان سے من بہلاتے ہیں، جب من بھر جاتا ہے تو چھوڑ جاتے ہیں۔ ہم نے پولیس میں رپورٹ کی، انہوں نے کوئی مدد نہیں کی، وہ کہتے ہیں کہ کیس نہیں بنتا، کیونکہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ان سے رابطہ کرنا چاہا مگر ان کے نمبر بند تھے، اس کے گھر والے بھی رابطے میں نہیں ہیں۔
بس اب کوئی حل بتا دیں، میری دوسری جگہ شادی کے خواہشمند ہیں، تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ اب مجھے کوئی حل نکال کر دیں، کیونکہ ہم نے سب کوششیں کر لی ہیں، کوئی حل نہیں ہوا۔
نوٹ: اس نے جب سات دن بھی وہاں رکھا تھا تو مجھے کوئی خرچہ نہیں دیا تھا، وہ بھی میں نے خود سے کیا تھا، اب تک کوئی رابطہ نہیں ہے، کسی بھی قسم کا، نہ کوئی نظر آ رہا ہے کہ رابطہ کسے ہو، یہ نا ممکن نظر آتا ہے، اور کوئی کسی قسم کا حق نہیں دیا، نہ کوئی خرچ، دو سال گذر چکے ہیں، نکاح ہوئے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں عورت کے خرچے کا کوئی انتظام نہ ہو([1])، یا معصیت کے خوف سے آگے نکاح کیے بغیر گھر بیٹھے رہنا مناسب نہ ہو، تو عورت خود یا اپنے وکیل کے ذریعے عدالت میں اپیل دائر کرے، اور گواہوں سے ثابت کرے کہ میرا نکاح فلاں شخص سے ہوا تھا، اس کے بعد گواہوں سے شوہر کے لا پتہ ہونے کو ثابت کرے، اس کے بعد عدالت شوہر کی تفتیش کے لیے اخبار میں اشتہار دے اور جب شوہر کے پتہ ملنے سے مایوسی ہو جائے، تو عورت کو چار سال تک مزید انتظار کا حکم کرے۔ اس انتظار کے بعد بھی اگر شوہر کا پتہ نہ ملے تو عدالت سے دوبارہ رجوع کیا جائے، اور عدالت شوہر کو مردہ تصور کر کے اس نکاح کو ختم کر دے، اس کے بعد عورت عدت وفات یعنی چار ماہ دس دن گذارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
یہ حکم اس صورت میں ہے جب عورت کے لیے نفقہ اور گذارہ کا بھی کچھ انتظام ہو([2])، اور گذارہ کا بھی کچھ انتظام ہو، اور عصمت و عفت کے ساتھ چار سال کی مدت گذارنے پر قدرت ہو۔ اگر اس کے نفقہ اور گذارہ کا انتظام نہ ہو[3]، نہ تو شوہر نے چھوڑا ہو اور نہ ہی عزیز و قریب نے یا حکومت نے کفالت کی ہو، اور خود بھی محنت و مزدوری پردہ و عفت کے ساتھ کر کے اپنا گذارہ نہیں کر سکتی تو کم از کم ایک ماہ صبر و انتظار کر کے کسی مسلمان جج کی عدالت میں فسخ نکاح کا مطالبہ کرے، اور وہ جج تحقیق و تفتیش مکمل ہو جانے پر نکاح فسخ کر دے۔ اگر نفقہ و گذارہ کا تو انتظام ہے، مگر شوہر کے بغیر زنا و بدکاری میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے تو ایک سال انتظار کے بعد مسلمان جج کی عدالت میں فسخ نکاح کا دعویٰ کرے۔ وہ جج تحقیق و تفتیش مکمل ہونے پر نکاح کو فوری فسخ کر دے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
[1] ۔ "کوئی انتظام نہ ہو” سے یہ مراد ہے کہ کوئی دائمی انتظام نہ ہو۔ اگرچہ عارضی انتظام ہو۔ مثلاً حکومت یا کوئی عزیز و اقارب میں سے فیصلے کی مدت یعنی چار سال تک کا خرچہ اٹھانے کو تو تیار ہے، مگر مستقل خرچہ اٹھانے کو تیار نہیں۔
[2] ۔ یعنی عارضی انتظام ہو، خواہ حکومت کی طرف سے یا عزیز و اقارب کی طرف سے۔
[3] ۔ کچھ بھی۔ (***، 15-12-6)
© Copyright 2024, All Rights Reserved