• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کسی ایک بیٹے کی محنت و معاونت کی وجہ سے مکان صرف اسی بیٹے کو ہدیہ کرنا

 

استفتاء

والدین کی معاونت کرنے کے لیے ایک لڑکا باہر ملک چلا گیا، جس کی کمائی سے والدین نے مکان از سر نو تعمیر کیا، مکان والدہ کی ملکیت تھا۔ دیگر اولاد مالی اعتبار سے کمزور تھی، والدین نے اس لڑکے کی محنت و معاونت سامنے رکھتے ہوئے مکان اس کو زبانی ہبہ کر دیا، اور وکیل سے عدالت کے ذریعہ قانونی طور سے ہبہ کی تکمیل کا کہا، وکیل نے بتایا کہ بجائے ہبہ کے عدالت کے سامنے شراء کا تذکرہ کیا جائے، جس سے عدالتی عمل جلد مکمل ہو گا۔ لہذا عدالت میں کیس فائل کیا گیا جو کہ ساتھ لف ہے۔ عدالت میں والدین اور ساری اولاد بذات خود پیش ہوئے، اور انہوں نے زبانی و تحریری اقرار کیا کہ انہیں یہ مکان اس لڑکے کے نام کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ عدالت نے مکان لڑکے کے نام کرنے کا آرڈر جاری کر دیے اور مکان نام ہو گیا۔

اب والدین کا انتقال ہو چکا ہے، وہ لڑکا چاہتا ہے کہ اپنے بہن بھائیوں کی مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے، اور اس وجہ سے بھی کہ لوگ والدین پر اعتراض کریں گے کہ انہوں نے دیگر اولاد کو کچھ نہیں دیا، شرعی حصہ دینا چاہتا ہے۔ اس لڑکے نے جب یہ بات اپنے بہن بھائیوں کے سامنے رکھی تو چند نے شرعی حصہ کے پیش نظر اپنے مطالبات سامنے رکھے، جو اس لڑکے کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔

اسی اثناء میں جامعہ اشرفیہ سے فتویٰ بھی حاصل کیا گیا، جس کے مطابق چونکہ والدہ نے وہ مکان ہبہ کیا تھا، جس میں خود رہائش پذیر تھیں، اس لیے قبضہ نہ ہوا اور ہبہ تام نہ ہوا، اور تمام ورثاء کو شرعی حصہ دیا جائے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں *** نے والدین کو جو کچھ کما کر دیا وہ والدین کی ملکیت تھا، لہذا مکان، دکانیں اور ان کی تعمیر سب کچھ والدہ کی ملکیت تھا۔ لیکن جب والدہ نے اپنی زندگی میں دیگر اولاد کی رضا مندی سے *** کی محنت و معاونت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے مکان زبانی طور سے ہبہ کیا، پھر اس کے نام انتقال بھی کروا دیا تو اب مکان *** کی ملکیت ہے۔

اس مکان میں سے کسی بہن بھائی کو حصہ دینا *** پر شرعاً لازم نہیں ہے، اگر *** اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو شرعی طور سے اس کی کوئی مقدار لازم نہیں ہے۔ جتنا چاہے، دے سکتا ہے۔

 

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved