• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کسی شریک کے انتقال کر جانے کی صورت میں پالیسی

استفتاء

T.S ***میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔

T.S   کے شرکاء میں سے کسی شریک  کا انتقال ہو جائے تو اس صورت میں کوئی پالیسی پہلے سے نہیں بنائی گئی ہے،البتہ   بظاہر یہ ہوگا   کہ اس وقت تمام مال کی مارکیٹ ریٹ پر کلوزنگ کر کے  تمام شرکاء کےحصے متعین کرلیےجائیں گےپھر  اس مرحوم کے حصےکی قیمت  اس کے ورثاء کودی جائے گی۔پھر ان کے ورثاء کی مرضی ہے  چاہیں تو  وہ اس رقم کو دوبارہ کاروبار میں شامل کر لیں  یا کچھ بھی کریں۔

نوٹ:ہمارےکاروبارکی پالیسی کےمطابق کاروبارمیں واجب الاداء(Payable)اورواجب الوصول (Receivable)  دیون نہیں ہوتے سارا کام کیش پر ہوتا ہے۔

مذکورہ پالیسی کاکیا حکم ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ طریقہ کار درست ہے۔

الدرالمختار وحاشیۃ ابن عابدین(۴/۳۲۷)

(وتبطل الشرکۃ)أی شرکۃ العقد(بموت أحدھما)علم الآخر أولا۔۔۔فلو کانت الثلاثۃ فمات أحدھم حتی انفسخت فی حقہ لا تنفسخ فی حق الباقین،بحر عن الظھیریۃ،وتبطل أیضا(بإنکارھا)وبقولہ:لاأعمل معک فتح۔

بدائع الصنائع(۶/۷۸)

(ومنها) موت أحدهما أيهما مات انفسخت الشركة لبطلان الملك وأهلية التصرف بالموت، سواء علم بموت صاحبه أو لم يعلم؛ لأن كل واحد منهما وكيل صاحبه، وموت الموكل يكون عزلا للوكيل علم به أو لم يعلم؛ لأنه عزل حكمي، فلا يقف على العلم۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق (5/ 199)

وإن ‌مات ‌شريك العنان، ثم اشترى المستبضع فالمشترى كله للمتفاوضين؛ لأنه انفسخت الشركة بموته فانعزل المستبضع في حقه وبقي الإبضاع صحيحا في حق المتفاوضين، ثم ورثة الميت إن شاءوا رجعوا بحصتهم على أيهم شاءوا

الموسوعة الفقهيه.(13/142)

إِذَا مَاتَ أَحَدُ الشَّرِيكَيْنِ  وَلَمْ يَتَعَلَّقْ بِالتَّرِكَةِ دَيْنٌ وَلاَ دِيَةٌ فَلِلْوَارِثِ الرَّشِيدِ الْخِيَارُ بَيْنَ الْقِسْمَةِ وَتَقْرِيرِ الشَّرِكَةِ، فَإِنْ كَانَ عَلَى الْمَيّت دَيْنٌ فَلَيْسَ لِلْوَارِثِ تَقْرِيرُ الشَّرِكَةِ إِلاَّ بَعْدَ قَضَاءِ الدَّيْنِ۔

فتاوی عثمانی(۳/۷۲)

سوال:***اور ***نے برابر کی شرکت سے ایک کاروبار شروع کیاکاروبار چالو ہوگیا کچھ عرصہ بعد ***کا اچانک انتقال ہوگیا مرحوم نے پسماندگان میں ایک بیوہ،تین نابالغ بچے اور ایک بڑا بھائی چھوڑا ہے۔اب یہ بتایا جائے کہ آیا *** مرحوم کی شرکت اس کاروبار میں باقی ہے یا ختم ہوگئی؟ اگر ختم ہوگئی تو اب ***مرحوم کا حصہ کس شخص کے حوالہ کیا جائے؟بیوہ کہتی ہے مجھے دےدولہذا شرعی حکم سے مطلع فرمایا جائے،نیز اگر بچوں یا بیوی کی رضامندی سے مرحوم کا یہ حصہ شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کرکے ہر ایک حصہ اس کے حوالہ کردیا جائےاور بچوں کا حصہ اس کی والدہ کے پاس رکھوادیا جائےتو کیا ایسا ہوسکتاہے؟

جواب:مذکورہ صورت میں ***کے انتقال ہونے کی وجہ سے مرحوم کی شرکت ***کے ہمراہ ختم ہوگئی ***پر واجب ہے کہ *** کا جس قدر حصہ کاروبار میں ہے وہ جدا کردے اور پھر جو شخص مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا انتظام کررہاہو،اس کے حوالہ کردے،اور بہتر یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے حوالہ کردےتاکہ بعد میں کوئی فساد نہ ہو۔اور ایسا بھی کرسکتا ہے کہ خود شرع کے مطابق تقسیم کرے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved