• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

کیا شوہر کے ذمے بیوی کے حقوق کی ادائیگی بیوی کے مطالبے پر موقوف ہے؟

استفتاء

میری شادی کو 25 سال کا عرصہ گذر گیا ہے، میری عصری تعلیم B.A ہے اور بفضلہٖ تعالیٰ دین سے بھی واقفیت ہے ۔جب میں اپنے شوہر کو کہتی ہوں کہ میری تمام ضروریات اور کفالت آپ کے ذمے ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے، آپ کو اپنی تمام  ضروریات بتانا ہوں گی اور مجھ سے مانگنا ہوگا۔ سال میں  ایک عید کا جوڑا دیتے ہیں  وہ بھی مانگنے پر، پچھلے سال سے میں نے مانگنا چھوڑ دیا ہے تو جب اپنے دو جوڑے لے آتے ہیں تو مجھ سے کہتے ہیں کہ تم نے کپڑے نہیں لینے تو میں کہتی ہوں کہ آپ پیسے دیں گے  تو لوں گی اس پر وہ کہتے ہیں  کہ آپ مانگتی نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ:

  1. کیا دین میں ایسا ہے کہ عورت اپنی ضرورت کے لیے شوہر سے مانگے کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ مانگنا تو ماسیوں کا کام ہے، بیوی اور ماسی میں کوئی تو فرق ہو۔
  2. اس کے علاوہ عورت کو مرد سے سال میں کتنے جوڑے، چپل، چوڑی، عبایا ملنا چاہیے؟
  3. کیا بیوی کو شوہر کی خوشنودی کے لیے اپنی ہر ضرورت کی چیز مانگ کر لینی چاہیے؟
  4. 23 سال سے صرف ایک جوڑا کپڑا دیتے رہے وہ بھی مانگنے پر۔ کیا سال میں صرف ایک جوڑے کی ضرورت ہوتی ہے عورت کو؟
  5. وہ کہتے ہیں کہ میں آپ کا شوہر ہوں کوئی سیکریٹری نہیں ہوں کہ آپ کی ہر ضرورت کا خیال رکھوں۔

    الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

  6. دین میں ایسی کوئی بات نہیں کہ بیوی اپنے حقوق شوہر سے مانگے تو پھر وہ ادا کرے بلکہ شوہر کے ذمے ہے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق کا خیال رکھے خواہ بیوی مانگے یا نہ مانگے کیونکہ دین میں ہر ذی حق(حق دار)  کو اس کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے ذی حق(حق دار)  اپنا حق مانگے یا نہ مانگے۔
  7. اس کی کوئی لگی بندھی مقدار متعین نہیں بلکہ عرف ورواج کے مطابق گرمی، سردی کے اتنے کپڑے، جوتے وغیرہ مہیا کرنا ضروری ہے جس سے بیوی آسانی سے گذر بسر کرسکے۔
  8. شوہر پر بیوی کی جو چیزیں واجب ہیں  ہر دفعہ بیوی کا انہیں مانگنا لازمی نہیں ہے بغیر مانگے شوہر پر ان کی ادائیگی لازم ہوتی ہے۔
  9. اس کا جواب نمبر 2 کے تحت بیان کردیا گیا ہے۔
  10. جو چیزیں شرعاً شوہر کے ذمہ ہیں ان کی حد تک شوہر کا مذکورہ جملہ درست نہیں ہے۔

1.صحیح بخاری (رقم الحدیث:1968) میں ہے:

إن لربك عليك حقا، ولنفسك عليك حقا، ولأهلك عليك حقا، فأعط كل ‌ذي ‌حق ‌حقه

الدر المختار (2/700) میں ہے:

النفقة هى الطعام والكسوة والسكنى ……. فتجب للزوجة بنكاح صحيح ….. على زوجها لانها جزاء الاحتباس ….. ولو …… فقيرة أو غنية.

  1. ہندیہ (1/555) میں ہے:

الكسوة واجبة عليه بالمعروف بقدر ما يصلح لها ‌عادة ‌صيفا وشتاء كذا في التتارخانية ناقلا عن الينابيع.وإنما نفرض الكسوة في السنة مرتين في كل ستة أشهر مرة كذا في المبسوط، ولو فرض لها الكسوة مدة ستة أشهر ليس لها غيرها حتى تمضي المدة فإن تخرقت قبل مضيها إن كانت بحيث لو لبستها لبسا معتادا لم تتخرق لم يجب عليه، وإلا وجب.

  1. بدائع الصنائع (3/437) میں ہے:

ويتولى الزوج ‌الإنفاق ‌بنفسه قبل الفرض إلى أن يظهر ظلمه بالترك والتضييق في النفقة فحينئذ يفرض عليه نفقة كل شهر ويأمره أن يدفع النفقة إليها لتنفق هي بنفسها على نفسها.

شامی(5/295) میں ہے:

(‌وللزوج ‌الانفاق عليها بنفسه) ولو بعد فرض القاضي.خلاصة (إلا أن يظهر للقاضي عدم لانفاقه فيفرض) أي يقدر (لها)

وفي الشامية: (قوله ‌وللزوج ‌الإنفاق عليها بنفسه) لكونه قواما عليها لا ليأخذ ما فضل، فإن المفروضة أو المدفوعة لها ملك لها، فلها الإطعام منها والتصدق، ومقتضاه أنها لو أمرته بإنفاق بعض المقرر لها فالباقي لها……………….

  1. ہدایہ (2/287) میں ہے:

وتفرض على الزوج إذا كان موسرا ‌نفقة ‌خادمها ووجهه أن كفايتها واجبة عليه وهذا من تمامها إذ لا بد لها منه

ہندیہ (1/549) میں ہے:

وعليه من الماء ما تغسل به ثيابها وبدنها ‌من ‌الوسخ

ہندیہ (1/549) میں ہے:

ويجب لها ‌ما ‌تنظف ‌به وتزيل الوسخ كالمشط والدهن، وما تغسل به من السدر والخطمي، وما تزيل به الدرن كالأشنان والصابون على عادة أهل البلد، وأما ما يقصد به التلذذ والاستمتاع مثل الخضاب والكحل فلا يلزمه بل هو على اختياره إن شاء هيأه لها، وإن شاء تركه، فإذا هيأه لها فعليها استعماله.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved