استفتاء
دوسرا یہ مسئلہ دریافت کرناتھا کہ کہ دینی مسائل سے لا علمی کی بنا پر اور خصوصا پاکی ناپاکی کے مسائل سے ناواقفیت کی بنا پر کئی مرتبہ ایسا ہوتا رہا کہ نماز کے کے لیے وضو کرنا ضروری تھا مگر میں پہلے والے وضو کو برقرار سمجھ کر نمازیں پڑھتی رہی، یا یہ کہ غسل ضروری تھا مگر علم نہ تھا کہ اس طریقے سے یا کیفیت سےغسل ضروری ہو جاتا ہے میں بس اسی طرح نمازیں پڑھتی رہی۔ اب میرے لیے کیا حل ہے۔ کیا ان تمام نمازوں کو قضا کروں؟ اگر قضا کرنا ہو تو وقت کا مجھے بالکل کوئی اندازہ نہیں کہ کون کونسی نماز ٹھیک نہ ہوئی۔ تو نیت باندھتے وقت ، ٹائم کا تعیین کیسے کروں؟
ویسے میں روزانہ کی پانچ فرض نماز وں کے ساتھ ساتھ روزانہ پانچ نمازیں قضا بھی کررہی ہوں۔ لیکن میں نے کسی دینی مسائل کی کتاب میں پڑھا کہ قضا نمازوں کے وقت کا تعیین بھی ضروری ہے۔ اس کے حوالے سے راہنمائی فرما دیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
ایسی حالت میں جو نمازیں پڑھی گئی ہیں، محتاط اندازہ سے ان کی تعداد طے کر کے ان کی قضاء کریں، قضا کے لیے تاریخ کا معلوم ہونا یا متعین کرنا ضروری نہیں۔ بس قضا کرتے وقت یہ نیت ہو کہ اپنی فوت شدہ نمازوں میں سے پہلی قضاء نماز ادا کر رہاہوں۔
جو نمازیں مذکورہ بالا نیت کے بغیر پڑھی گئی ہیں ان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
في الشامية: كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه او آخره و كذا الصوم لو من رمضانين هو الأصح. في الحاشية: مثاله لو فاته صلاة الخميس و الجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة فإن أراد تسهيل الأمر يقول أول فجر مثلاً فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً…. وقيل لا يلزمه التعيين أيضاً كما في صوم أيام من رمضان واحد و مشى عليه المص في مسائل شتى آخر الكتاب تبعاً للكنز و صححه القهستاني عن المنية. لكن استشكله في الأشباه و قال إنه مخالف لما ذكره اصحابنا كقاضيخان و غيره و الأصح الاشتراط.
قلت: و كذا صححه في الملتقى هناك وهو الأحوط و به جزم في الفتح كما قدمناه في بحث النية و جزم به هنا صاحب الدرر أيضاً. (شامی: 2/ 76، 77 )
ایک قول پر دن کی تعیین ضروری نہیں یہ قول بھی مصحح ہے اگر چہ اشتراط تعیین ارجح و احوط ہے۔ اگر نمازیں لوٹانے میں حرج ہو تو اس قول پر عمل کرنے کی گنجائش ہے۔( احسن الفتاویٰ) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved