- فتوی نمبر: 9-368
- تاریخ: 19 اپریل 2017
- عنوانات: مالی معاملات > متفرقات مالی معاملات
استفتاء
*** نے دورانِ ملازمت در سعودی عرب اپنے دوست *** سے ایک لاکھ روپیہ برائے خرید دکان ادھار مانگا۔ اسی دوران *** کے دوسرے دوست *** نے اسے کہا کہ میں پاکستان چھٹی جا رہا ہوں کچھ ریال ادھار دیدو تاکہ میں سامان خرید کر ساتھ لے جا سکوں۔ *** نے *** سے کہا: مجھ سے *** نے بھی ادھار مانگا ہے اور تم بھی مانگ رہے ہو۔ تو اس طرح کر لو میں تمہیں یہاں ریال دیتا ہوں تم سامان خرید لو اور پاکستان میں ایک لاکھ *** کو ادا کرو۔ چنانچہ *** نے اٹھارہ ہزار ریال دے دیدے، *** نے وہاں سامان خرید لیا اور پاکستان آنے کے بعد ایک لاکھ روپیہ پاکستانی *** کو دیدیا۔ *** نے اپنی ضرورت پوری کر لی۔ کچھ مدت بعد *** نے قرض واپس کرنا چاہا تو ریال کا ریٹ معلوم کیا تو پتہ چلا کہ اس وقت چودہ ہزار ریال سے ایک لاکھ روپے پاکستانی بنتا ہے۔ چنانچہ اس نے چودہ ہزار ریال ادا کر دیے۔ اب *** کہتا ہے کہ میں نے جب دیے تو اٹھارہ ہزار ریال کے بنے تھے میرا حق اٹھارہ ہزار ریال ہے۔ *** نے کہا مجھ تک آپ کے ایک لاکھ روپیہ پہنچے ہیں۔ اب ایک لاکھ روپیہ چودہ ہزار ریال سے بنتے ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیل کی روشنی میں دریافت طلب امر یہ ہے کہ
1۔ *** اور *** میں سے کس کا دعویٰ باعتبار شریعت معتبر ہے؟
2۔ کیا *** کو م*** چار ہزار ریال *** کو دینا لازم ہیں؟ جبکہ *** کو قرض پاکستانی روپیہ میں دیا گیا تھا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ *** نے *** کو اٹھارہ ہزار ریال قرض دیا اور پھر اس کو یہ کہا کہ یہ میرا قرض بصورت ایک لاکھ پاکستان فلاں کو دے دو۔ اس صورت میں *** *** کا مقروض بھی ہے اور *** کو قرض دینے میں *** کا وکیل بالاقراض بھی ہے اور وکیل کا فعل مؤکل کا فعل ہوتا ہے۔
اس صورت میں یوں سمجھا جائے گا کہ *** نے اپنا قرض بصورت ایک لاکھ روپیہ وصول کر کے آگے *** کو بطور قرض دے دیا۔ اس لیے اب *** *** سے بصورت ریال واپسی کا حق نہیں رکھتا۔ اگر کرنسی لے تو ایک لاکھ لے سکتا ہے ہاں البتہ کرنسی کی قدر گرنے کی وجہ سے یہ کر سکتا ہے اس تاریخ میں ایک لاکھ کی جتنی چاندی آتی تھی اتنی چاندی آج وصول کر لے۔
فتاویٰ شامی (7/412) میں ہے:
القرض لا يتعلق بالجائز من الشروط فالفاسد منها لا يبطله ولكنه يلغو شرط رد شيء آخر.
در مختار (۔۔۔۔۔) میں ہے:
(و) لو أمر رجل مديونه (بشراء شيء) معين (بدين له عليه وعينه أو) عين (البائع صح) وجعل البائع وكيلاً بالقبض دلالة فيبرأ الغريم بالتسليم إليه بخلاف غير المعين لأن توكيل المجهول باطل … (ولو أمره) أي أمر رجل مديونه (بالتصدق بما عليه صح) أمره بجعله المال لله تعالى وهو معلوم.
رسائل ابن عابدین (2/60) میں ہے:
وفي الذخيرة البرهانية بعد كلام طويل: هذا إذا كسدت الدراهم أو الفلوس قبل القبض فأما إذا غلت فإن ازدادت قيمتها فالبيع على حاله ولا يتخير المشتري، وإذا انتقصت قيمتها ورخصت فالبيع على حاله ويطالبه بالدراهم بذلك المعيار الذي كان وقت البيع…. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved