• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

"میں نے تجھے فارغ کردیا” کہنے سے طلاق کا حکم

استفتاء

بیوی  کا بیان:

خاوند نے غصے میں بیوی کو مارا، گالم گلوچ کی ، اس کے بعد بیوی سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کیا میں تمہیں طلاق دے دوں؟ اس کے بعد ایک بار کہا  کہ "میں نے تجھے فارغ کردیا” اس دوران خاوند کی والدہ آگئیں تو خاوند نے اپنی والدہ سے کہا کہ "میں نے اس (بیوی) کو  فارغ کردیا ہے” اس سے پوچھ لیں کہ اب یہ کیا کرے گی؟ اور اس کے بعد خاوند گھر سے باہر چلا گیا۔

خاوند کا بیان:

دوران جھگڑا میں نے بیوی سے پوچھا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو یا نہیں؟ اگر تم کہو تو کیا میں تمہیں چھوڑ دوں؟ نہ میں نے اسے طلاق دی ہے اور نہ میری طلاق  دینے کی نیت ہے۔ فارغ کرنے کا مقصد طلاق دینا نہیں بلکہ میرا یہ  مطلب ہے کہ تم میرے کاموں  میں مداخلت نہ کرو جو تمہارے دل میں آئے وہ کیا کرو اگر طلاق دینی ہوتی تو میں صاف صاف طلاق کہہ دیتا۔

بڑی بچی کا بیان:

بڑی بیٹی جس کی عمر  تقریباً ساڑھے پندرہ سال ہے اس نے اپنی موجودگی میں سنا کہ والد نے یہ کہا کہ "میں تجھے چھوڑ دوں گا” اور پاپا نے دادی امی کو کہا کہ میں نے اس  کو فارغ کردیا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں  بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے سابقہ نکاح ختم ہوگیاہے ، لہذا اگر میاں بیوی اکٹھے رہنا چاہیں تو  اس کے لیے نئے مہر کے ساتھ کم از کم دوگواہوں کی موجودگی میں نئے سرے سے نکاح کرنا  ضروری ہوگا،اورآئندہ کیلئے خاوند کے پاس دو  طلاقوں کاحق باقی رہے گا۔

توجیہ: شوہر کے غصہ کی حالت میں کہے  گئے الفاظ ” میں نے تمہیں فارغ کردیا ”کنایات طلاق  کی تیسری  قسم  میں سے ہیں جن سے غصہ کی حالت  میں کہنے کی وجہ سے شوہر کی  نیت کے بغیر بھی بیوی کے حق میں ایک طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے۔ مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر نے یہ الفاظ غصے کی حالت میں کہے ہیں لہٰذا ان سے بیوی کے حق میں ایک بائنہ طلاق واقع ہوچکی ہے۔

در مختار(5/521) میں ہے

الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو ‌دلالة ‌الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث: رضا وغضب ومذاكرة، والكنايات ثلاث: ما يحتمل الرد، أو ما يصلح للسب، أو لا ولا

(فنحو اخرجي واذهبي وقومي) تقنعي تخمري استتري انتقلي انطلقي اغربي اعزبي من الغربة أو من العزوبة (يحتمل ردا، ونحو خلية برية حرام بائن) ومرادفها كبتة بتلة (يصلح سبا، ونحو اعتدي واستبرئي رحمك، أنت واحدة، أنت حرة، اختاري، أمرك بيدك، سرحتك فارقتك، لا يحتمل السب والرد

(وفي الغضب) توقف (الاولان) إن نوى وقع وإلا لا (وفي مذاكرة الطلاق) يتوقف (الاول فقط) ويقع بالاخيرين وإن لم ينو

فتاویٰ عالمگیری(1/472) میں ہے:

إذا كان الطلاق بائنا ‌دون ‌الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية

بدائع الصنائع (3/180) میں ہے:

أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت.

احسن الفتاوی (5/188) میں ہے:

سوال: کوئی شخص بیوی کو کہے "تو فارغ ہے ” یہ کون سا کنایہ ہے؟…… حضرت والا اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔بینوا توجروا

جواب :الجواب باسم ملہم الصواب

بندہ کا خیال بھی یہی ہے کہ عرف میں یہ لفظ صرف جواب ہی کے لیے مستعمل ہے اس لئے عند القرینہ بلانیت بھی اس سے طلاق بائن واقع ہوجائے گی۔ فقط اللہ تعالی اعلم۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved