• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مخصوص حالات میں بچیوں کی پرورش کا حق

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ من *** کی شادی کو تیرہ سال ہو گئے، بیوی کی طرف سے سخت پریشانی ہے۔

میری بیوی ہر کام میں نافرمانی کرتی ہے، اس کا الٹ کرتی ہے۔ گھر  کے کام کاج میں بھی غیر ذمہ دار ہے، میں بیمار ہو جاؤں تو تیمار داری نہیں کرتی، اپنی صفائی  کا خیال نہیں رکھتی، بیس پچیس دن گذر جانے پر بھی نہیں نہاتی اور نہ کپڑے تبدیل کرتی ہے، سمجھا سمجھا کر تھک گیا ہوں، کپڑے پھٹ جانے پر بھی تبدیل نہیں کرتی، بعض اوقات نا مناسب جگہ سے بھی پھٹے ہوئے ہوتے ہیں، سر میں کنگھی نہیں کرتی، اکثر بال بکھرے رہتے ہیں۔ نماز بالکل نہیں پڑھتی، پاکی نا پاکی کا بھی خیال نہیں رکھتی، اس کے والدین، بہن بھائیوں کودیکھتے ہوئے میں نے اس کو نہیں چھوڑا کہ اس کے گھر والے پریشان ہوں گے اور برداشت کرتا رہا، اور سمجھاتا رہا کہ شاید اولاد ہونے پر سمجھ جائے، مگر پھر بھی نہ سمجھی۔

انہی وجوہات کی بناء پر ایک طلاق بھی دی تھی (کسی کام سے اس کو منع کیا تھا، اور یوں کہا تھا کہ دوبارہ یہ کام نہ کرنا، اگر دوبارہ یہ کام کیا تو سمجھ تو آزاد ہے، اس نے وہ کام کر لیا)۔ لیکن اس کے والدین اور بہن بھائیوں کی پریشانی کے خیال سے رجوع کر لیا، لیکن پھر بھی اس کو عقل نہ آئی۔ 2013ء، 9 محرم سخت پریشانی کا دن تھا جو شاید  مرتے دم نہ بھولے۔ ہمارے محلہ میں کرایہ پر ایک فیملی آئی، میں نے سب گھر والوں سے کہا کہ یہ نئے لوگ ہیں، ان سے میل جول نہیں رکھنا، کیونکہ ان کا رہن سہن مناسب نہیں، لیکن اس نے ان کے ساتھ دوستی لگائی اور ان کے بچوں کے اترے ہوئے کپڑے اپنے بچوں کو پہنائے (محترمہ اپنے کزنوں کے بچوں کے کپڑے کبھی اپنے بچوں کو نہیں پہناتی، ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا)۔  مندرجہ بالا حالات کی وجہ سے میں اور والدہ محترمہ ڈپریشن کے مریض ہو گئے ہیں، والدہ کی حالت بہت خراب ہے، بولتی بھی نہیں۔

9 محرم 2013 کو بچوں نے عجیب کپڑے پہنے ہوئے تھے، جو کہ ہمارے نہیں تھے، میں نے پوچھا یہ کپڑے کہاں سے آئے؟ امی کی طبیعت خراب دیکھ کر میں خاموشی سے باہر نکل گیا تاکہ غصہ پر قابو پا سکوں۔ آدھے گھنٹے بعد گھر سے باہر میں نے بیٹی کو آواز دی، مریم، تو مریم اسی گھر سے نکلی، جہاں سے منع کیا تھا، تمہاری والدہ کدھر ہے، یہ سن کر وہ بھی اسی گھر سے نکلی،  میں نے غصہ میں آ کر کہا  کہ "میں تمہیں اتوار کو تین دن بعد تمہاری والدہ کے گھر چھوڑ آؤں گا”، اس نے کہا کہ ابھی چھوڑ آؤ، میں بھی غصہ میں تھا، میں نے کہا کہ چلو، اس نے کپڑے اٹھائے اور گھر سے باہر نکل گئی، میں امی کی حالت دیکھ رہا تھا، امی کانپنے لگیں، میں وہاں بیٹھ گیا، دس منٹ بعد آئی اور غصے سے کہا ابھی چلو، سخت بد تمیزی کے ساتھ بولی، میں نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے، خدارا امی کی طبیعت ٹھیک نہیں، میں اس وقت نہیں جا سکتا، اتوار کو چلیں گے، لیکن یہ دوبارہ نکلی، نہ مانی، 15 منٹ  کے بعد میں نے اس کو سڑک کے قریب مسجد کے پاس بیٹھے دیکھا جہاں میرے دوست بھی موجود تھے، میں نے وہاں بھی منت  کی کہ گھر چلو، یہ موقعہ نہیں ہے، لیکن یہ اپنی جگہ سے نہیں اٹھی، میں بچوں کو لے کر آ گیا، والد صاحب بڑی مشکل سے منا کر لائے، چنانچہ اگلے دن دس محرم کو میں اس کو اس کے گھر کہوٹہ چھوڑ آیا، اس کے والدین کو اس کی حرکت سے آگاہ کیا، پہلے بھی کئی مرتبہ آگاہ کیا، لیکن انہوں نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے، اس سے کوئی باز پرس نہ کی، اور میں چلا آیا۔ ڈیڑھ سال بعد اس  کے والدین اور چند احباب نے مجھے راضی کیا، کہ اس کو علیحدہ مکان میں رکھو، اگر یہ دوبارہ ایسے کرے گی تو ہم ذمہ دار ہوں گے، اس وقت تم ہماری بات مان لو، چنانچہ حسب عادت رحم دلی نے مجھے اور زیادہ پریشان کر دیا، میں نے علیحدہ مکان کا بندوبست کیا، گھر میں ضرورت کی چیزیں مہیا کیں، اور اس کو لاہور لے آیا، گھر کا خشک راشن ماہوار اکٹھا لا کر دیتا تھا، گوشت ہفتہ وار۔ چند دن بعد اس نے مجھے پھر تنگ کرنا شروع کر دیا، ایک دن ناشتہ میں پریشان کیا، میں نے اس دن سے گھر میں کھانا چھوڑ دیا، پھر اور پریشان کیا، میں نے کمرہ تبدیل کر لیا، میلے کپڑے دروازوں پر پڑے ہوتے ہیں، بیڈ کی گندی چادر سات ماہ میں ایک مرتبہ دھلتی  ہے گرم میلا کمبل ابھی تک وہیں موجود ہے۔ سمجھانے پر بدتمیزی کرتی ہے، بچی کو پیمپر رات آٹھ بجے سے اگلے دن تین یا چار بجے تک پہنائے رکھتی ہے، منع کرنے پر باز نہیں آتی۔

میری تین بیٹیاں ہیں ایک ڈھائی سال کی، ایک ساڑھے چار سال کی، اور تیسری ساڑھے پانچ سال کی، ان کا بالکل خیال نہیں کرتی، کپڑے پٹھے پہناتی ہے، منہ ہاتھ نہیں دھلاتی، کوئی تہذیب نہیں سکھاتی، بیڈ پر کھانا کھلاتی ہے، بچیاں سکول سے روزانہ لیٹ ہو جاتی ہیں، کیونکہ ٹائم پر ناشتہ نہیں ملتا، اور میری بے عزتی ہو تی ہے، دو پہر کا کھانا بھی لیٹ ملتا ہے، اور کبھی بالکل نہیں دیتی، رات کا کھانا گیارہ بجے پر دیتی ہے۔ 1500 روپے سبزی کے لیے ماہوار، 500 روپے جیب خرچ ماہانہ لیکن مہینہ میں پانچ دن بھی سبزی نہیں پکتی، دال کی بڑی دیگچی بنا لیتی ہے، جو کم از کم تین دن چلتی ہے، کبھی چاول پکاتی ہے، تو وہ بھی تین دن سے کم نہیں چلتے۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بچوں کی خوراک کی کوئی پرواہ نہیں، ناشکری کرتی ہے، بچیوں کے سامنے بد تمیزی سے پیش آتی ہے، اور کبھی کبھار جیب سے پیسے بھی نکال لیتی ہے، ہفتہ میں ایک بار گھر کی صفائی ہوتی ہے، جس کا پانی گلی میں پھیل جاتا ہے، اور آنے جانے والے تنگ ہوتے ہیں، اور مجھے باتیں سننا پڑتی ہیں، منع کرنے پر اور زیادہ کرتی ہے۔ چھ سات ماہ سے انہیں باتوں پر ہماری لڑائی رہتی ہے، اتنا اونچا بولتی ہے کہ آواز گھر سے باہر جاتی ہے، محلہ دار بھی ناگفتہ حالت دیکھ کر سمجھ لیتے ہیں، مگر یہ نہیں سمجھتی، مجھے شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے، سکول والے بھی باتیں کرتے ہیں۔

ان حالات میں بچیوں کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے، ہر وقت پریشان رہتا ہوں کہ خدا نخواستہ یہ عادات بچیوں میں منتقل نہ ہو جائیں، میں کیا کروں گا؟ اگر بچیاں اس کے حوالے کر کے والدین کے گھر بھیج دیتا ہوں، تو اس گھر کے حالات بھی خراب ہیں، ہر وقت گالی گلوچ ہے، ان کے والد اور بھائیوں کے دوستوں کا گھر میں بلا تکلف آنا جانا رہتا ہے، میں نے کئی مرتبہ اس سے کہا کہ یہ مناسب نہیں، اگرچہ کتنے اچھے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، کیونکہ غیر محرم ہیں۔ بچے اگر ان کے ساتھ سسرال بھیج دوں، تب بھی تربیت نہیں ہے، اور اگر بچوں سمیت اس کو اپنے گھر رکھتا ہوں تو مندرجہ بالا حالات ہیں، سخت پریشان ہوں، پوچھنا یہ ہے کہ شریعت مطہرہ میں کوئی ایسی صورت ہے کہ میں اپنے بچوں کو اپنے پاس رکھ کر اپنی مرضی کے مطابق ان کے اچھی تعلیم و تربیت کر سکوں اور بچوں کو ان کی ماں سے علیحدہ رکھ سکوں، تفصیلی رہنمائی فرما کر مجھے اس اذیت سے اور دینی دنیوی نقصان سے بچائیں، اس کے ساتھ رہنا میرے لیے ممکن نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نو سال تک بچیوں کی پرورش کا حق ان کی والدہ کو ہے۔ البتہ بعض مخصوص احوال کی وجہ سے والدہ کا یہ حق نو سال سے پہلے بھی ختم ہو جاتا ہے۔ جو احوال آپ نے اپنی بیوی سے متعلق سوال میں ذکر کیے ہیں، یہ ایسے نہیں کہ جن کی وجہ سے والدہ کا یہ حق ختم ہو جاتا ہو۔ لہذا مذکورہ صورت میں فی الحال آپ کے لیے  بچیوں کو اپنی پرورش میں رکھنے کا حق نہیں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved