• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مرحوم والدین کا حصہ مسجد میں دینے کی وصیت کا حکم

استفتاء

مفتی صاحب وراثت کی تقسیم مطلوب ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ:

میرے پھو پھا کےانتقال کے وقت ان کے   کوئی بھائی ، بہن نہیں تھے، میری  پھو پھی اور میرے ابو صرف دو بھائی بہن تھے۔ 35 سال پہلے میرے ابو کاا انتقال ہوگیا تھا لہٰذا میں اپنے پھوپھی،   پھوپھا کے ساتھ رہی، میرے پھوپھا کی  دو بیٹیاں تھیں، ایک شادی شدہ اور دوسری نے شادی نہیں کی تھی ۔15 سال پہلے میرے پھوپھا کا انتقال ہوگیا تھا،میرے  پھوپھا انڈیا سے آئے تھے ان کی ایک بہن تھی جو  انڈیا میں  رہ گئی تھی اس کی کوئی اولاد نہیں تھی، اس بہن کا بھی پھوپھا کی زندگی میں انتقال ہوگیا تھا ۔ باقی خاندان یعنی دادا،  پردادا کی اولادیں وہیں انڈیا میں ہوں گی ہمیں ان کے بارے میں نہ معلومات ہیں نہ رابطہ ہے۔ میرے  پھوپھا  کے بھائی یا  چچا اور چچا کے بیٹوں میں سے کوئی زندہ نہیں ہے،  میری پھوپھی کے داماد نے اپنی  بیوی کے حصے کا مطالبہ کیا، ان کو چھوڑنے کی دھمکی دی تو میری پھوپھی نے آدھا گھر بیچ کر اپنی بڑی بیٹی کا حصہ دیدیا۔ اس بڑی بیٹی کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔ا س کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں اور شوہر حیات ہیں۔ اب میں ، میری پھوپھی اور ان کی غیر شادی شدہ  بیٹی رہ گئی، 5 سال پہلے میری پھوپھی کا اور اب میری پھوپھی کی چھوٹی بیٹی (یعنی جو غیر شادی شدہ تھی  ان)  کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔  میری پھوپھی کے چچا اور چچا کے بیٹوں میں سے کوئی زندہ نہیں ہے،  میری اس پھوپھی زاد  بہن نے انتقال سے 15 دن پہلے وصیت کی تھی کہ میرا ( یعنی پھوپھی کی اس بیٹی کا)  اور میرے امی ابو کا شرعی حصہ نکال  کر مسجد میں دیدینا  اس کے بعد جو بچے  اس میں سے آدھا میرا( یعنی ***) اور آدھا ان کے بھانجے  کا ہوگا۔ گھر کی جو قیمت لگی ہے وہ 60لاکھ روپے ہے لہٰذا اس رقم میں میرے پھوپھا ، پھوپھی اور ان کی مرحومہ بیٹی کا کتنا حصہ بنتا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں آپ کی پھوپھی کی بیٹی نے  جو وصیت کی تھی کہ "میرا اور میرے  امی ابو کا شرعی حصہ نکال کر مسجد میں دیدینا ….الخ” اس سے عام طور سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر میرے والدین زندہ ہوتے تو جو ان کا حصہ بنتا اسے مسجد میں دیدینا لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر والدین ہوتے تو ان دونوں کو چھٹا چھٹا حصہ ملنا تھا جس کا مجموعہ ثلث( ایک تہائی)  بنتا ہے اور وصیت بھی ایک تہائی مال تک جاری ہوسکتی ہےاس سے زیادہ کی وصیت ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے لہٰذا ایک تہائی حصہ  مسجد میں دیدیا جائے گا۔ اس وصیت میں اگرچہ مرحومہ نے اپنے حصے کا ذکر بھی کیا تھا لیکن  اول تو وہ خود ہی  مورثہ تھی جس کا الگ سے حصہ ہوتا ہی نہیں ، دوسرے یہ کہ  اگرہوتا بھی تو وہ ایک تہائی سے زائد ہوتا جس میں ورثاء کی اجازت کے بغیر وصیت جاری نہ ہوتی لہٰذا  میت کے کل ترکہ میں سے ایک تہائی 3/1 (جو 20لاکھ بنتا ہے)  میں وصیت جاری ہوگی لہٰذا اس رقم کو وصیت کے  مطابق  مسجد  میں دیدیا جائے گا۔اگرچہ وصیت میں *** کا ذکر بھی ہے لیکن چونکہ وصیت ایک تہائی مال تک وجوباً جاری ہوتی ہے اور ایک  تہائی مسجد میں ہی پوری ہو جائے گی اس لیے *** کے لیے وصیت کی رقم بچی ہی  نہیں اس لیے  ورثاء پر یہ ضروری نہیں کہ *** کو وصیت کے مطابق کچھ دیں، البتہ اگر ورثاء اپنی رضامندی سے *** کو کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔

باقی  وراثت کو  رشتہ داروں میں تقسیم کیا جائے گاا س کی تفصیل یہ ہے کہ باقی ترکہ کے 4 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 2حصے (50 فیصد)  ان کے بھانجے کو اور 1،1 حصہ(25 فیصد فی کس)  ان کی بھانجی کو دیا جائے گا یعنی60 لاکھ میں سے بقیہ  40لاکھ میں سے 20لاکھ روپے بھانجے کو اور 10،10لاکھ روپے ان کی ہر  بھانجی کو دیے جائیں گے۔

نوٹ: یہ حساب 60لاکھ روپے  کے بارے میں ہے لہٰذا اگر قیمت اس سے کم وبیش ہوئی تو اس کی تفصیل مذکورہ تفصیل سے مختلف ہوگی۔

صورت  تقسیم درج ذیل ہے:

4

1بھانجا2بھانجیاں
21+1

الدر المختار (10/388) میں ہے:

وفى المجتبى: ولو اوصى بمثل نصيب ابن لو كان فله النصف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved