• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مریض کا رمضان المبارک میں واجب آخرروزے کی نیت کرنا

استفتاء

مریض آدمی رمضان میں واجب آخر کی نیت  کریں تو رمضان کا روزہ ہوگا یا واجب آخر؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مریض آدمی رمضان کے مہینے میں واجب آخر کی نیت کریں تو واجب آخر سے ہی ہوگاجن کی وضاحت اکثر متون سے بھی ہوتی ہے اورجہاں رمضان ہی سے ہونا بعض فتاویٰ میں مذکور ہے اس سے وہ مریض مراد ہے جو روزہ رکھنے سے عاجز ہو اگر وہ واجب آخر کی نیت سے رمضان میں روزہ رکھ لیں، چونکہ اس رکھنے سے ان کا عجز کا ختم ہونا معلوم ہو گیا۔ اس  لیے رمضان سے ہی  ہوگا اور وہ مریض جو مرض کے بڑھنے کا اندیشہ ہو اگر وہ واجب آخر کی نیت سے روزہ رکھیں تو واجب آخر سے ہی ہوگا، مسافر کی طرح جیسے کہ ہدایہ میں ہے:

"و  لا فرق بين المسافر و المقيم و الصحيح و السقيم عند أبي يوسف و محمد لأن الرخصة كيلا تلزم المعذور مشقة فإذا تحملها التحق بغير المعذور و عند أبي حنيفة إذا صام المريض و المسافر بنية واجب آخر يقع عنه لأنه شغل الوقت بالأم لتحيمه في الحال و تخيره في صوم رمضان إلى إدراك العدة ".

 اور صاحب ہدایہ کی عادت شریفہ یہ ہے کہ جو مذہب ان کے ہاں راجح ہو اس کو بعد میں ذکر کرتے ہیں۔ ( ہدایہ: 1/ 230)

اور شرح وقایہ میں ہے:

” أي أداء رمضان  تصح بنية واجب آخر إلا في المرض أو السفر ۔ ( 1/ 244 )

 جسکے  حاشیہ میں مولانا عبد الحي صاحب لکھنوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

 (إلا في مرض أو سفر )  یعنی  إذا صام المريض أو المسافر في رمضان واجب آخر يقع عنه لأنه شغل الوقت بالأم  لتحتمه في الحال و تخييره في صوم رمضان فالرمضان في حقه كشعبان عمدة الرعايه 1/ 244

اور کنز کی حاشیہ  قوله النفل کےتحت  علامہ عینی اور  فتح القدیر والے لکھتے ہیں:

” و لنا أن رمضان لم يشرع فيه صوم آخر فكان متعيناً للفرض  و لمتعين لا يحتاج إلى  التعيين فيصاب بمطلق النية و بنية غيره و مع الخطء في الوصف إلا إذا وقعت النية من مريض و مسافر حيث يحتاج إلى التعيين لعدم تعينه في حقهما فلا يقع عن رمضان بل عما نوى من نفل أو واجب .( کنز الدقائق: 82

اور شرح نقایہ میں ہے :

"( وبنية واجب آخر إلا في سفر أو مرض ) فإن المسافر و المريض إذا نويا في رمضان واجباً آخر يقع عن ذلك الواجب و هذا عند أبي حنيفة و قال أبو يوسف و محمد يقع عن رمضان لأن الرخصه لأجل المشقة فإذا تتحمل المعذور التحق بغيره و لأبي حنيفة  أنهما شغلا الوقت بالأهم  لمؤاخذتهما بذلك الواجب في الحال حتى لو مات منها يأثم و تأخر مؤاخذتهما برمضان إلى إدراك عدة من أيام أخر حتى لو مات قبل إدراك العدة ليس عليه شيء ".

اور عبادات ميں  ائمہ ثلاثہ کے درمیان اختلاف ہو جائے تو امام صاحب کے قول کو ترجیح ہوتی ہے۔ شرح نقایہ: 1/ 56

(و لو نوى المريض أو المسافر فيه ) أي في رمضان ( واجبا آخر ) كالقضاء و كفارة القتل و الظهار ( وقع ) صومه ( عما نوى) هذه التسوية بين المريض و المسافر على رواية الحسن عن الإمام لكن فرق بينهما شمس الأئمة و فخر الإسلام في اصوليهما و جهه أن إباحة الفطر له عند الفجر عن أداء الصوم فأما عند القدرة فهو و الصحيح سواء بخلاف المسافر فإن الرخصة في حقه تتعلق بعجز باطن قام السفر الظاهر مقامه و هو موجود و في الإيضاح أن هذا الفرق ليس بصحيح و الصحيح أنهما متساويان و هو اختيار الكرخي و صاحب الهداية وغيرهما و أكثر مشائخ بخارى و به أخذا لمصنف لأن رخصته متلعقة بخوف ازدياد المرض لا بحقيقة العجز فكان كالمسافر في تعلق الرخصة بعجز مقدر. مجمع الأنهر: 1/ 245

در مختار ميں  ہے:

إلا إذا وقعت النية من مريض أو مسافر حيث يحتاج إلى التعيين لعدم تعينه في حقهما فلا يقع عن رمضان بل يقع عما نوى من نفل أو واجب على ما عليه الأكثر (بحر). و هو الأصح سراج. و قيل بأنه ظاهر الرواية فلذا اختاره المصنف تبعاً للدرر لكن في أوائل الأشباه الصحيح وقوع الكل عن رمضان سوى مسافر نوى واجباً آخر و اختاره ابن كمال و في الشرنبلالية عن البرهان: 2/ 93

علامہ شامی لکھتے ہیں:

 تلخص من كلام البحر أن في المريض ثلاثة أقوال أحدهما ما في الأشباه المذكور هنا و اختاره فخر الإسلام و شمس الأئمة و جمع و صححه في  المجمع . ثانيها ما مرّ في المتن أنه يقع عماّ نوى  و اختاره في الهداية و أكثر المشايخ و قيل أنه ظاهر الرواية و ينبغي وقوعه عن رمضان في النفل كالمسافر. ثالثها التفسيل بين أن يضره الصوم  فتعلق الرخصه بخوف الزيادة فيصير كالمسافر يقع عما نوى و بين أن لا يضره الصوم  كفساد الهضم تتعلق الرخصه بحقيقته فيقع عن فرض الوقت  و اختاره في الكشف و التحرير و هذا القول هو ما مر عن التلويح و جعله في شرح التحرير محمل القولين. وقال أنه تحقيق يحصل به التوفيق بحمل ما اختاره فخر الإسلام و غيره على من لا يضره الصوم  وحمل ما اختاره في الهدایة على ما يضره و تعقب الأكمل في التقرير هذا القول بأن من لا يضره الصوم لا يرخص له الفطر لأنه صحيح و ليس الكلام فيه قلت و أجيب عنه فيما علقته على البحر بما حاصله أن الصوم تارة يزداد به المرض مع القدرة ليه كمرض العين مثلاً و تارة لا يضره كمريض بفساد الهضم فالصوم لا يضره بل ينفعه فالأول تتعلق الرخصة فيه بخوف الزيادة و الثاني بحقيقة العجز بأن يصل إلى حالة لا يمكنه معها الصوم فإذا صام ظهر عدم عجزه فيقع عن رمضان و إن نوى غيره لأنه إذا قدر عليه مع كونه لا يضره لا يقول عاقل بأنه يرخص له الفطر هذا ما ظهر لي و الله اعلم.(شامی: 2/ 94 )

علامہ شامی کے ان مذکورہ عبارت سے یہ امور مستفاد ہوتے ہیں:

رمضان میں واجب آخر کی نیت سے روزہ رکھ لیں تو رمضان ہی ہوگا ا سے وہ مریض مراد ہے جن کو روزہ نقصان نہ دیتا ہو اور وہ مریض جو رکھنے سے جن کی مرض بڑھنے کا اندیشہ ہو اگر وہ رمضان میں واجب آخر کی نیت کریں تو  واجب آخر ہی ہوگا۔

نیز اس بات کی  وضاحت علامہ وہبت الزحیلی کی مرض کی تعریف سے بھی ہوتی ہے:

 "المرض معنى يوجب تغير الطبية إلى الفساد و هو يجز الفطر كالسفر للآية السابقة ( ومن كان منكم مريضاً أو على سفر فعدة من أيام أكر ) و ضابط المرض المبيح الفطر هو الذي  يشق معه الصوم مشقة شديدة أو يخاف الهلاك منه إن صام أو يخاف بالصوم زيادة المرض أو بطء لبرء أي تأخره فإن لم يتضرر الصائم بالصوم كمن به جرب أو وجع فرس أو أصبع أو دمل و نحوه لم يبح له الفطر”.

آگے علامہ وہبت الزحیلی لکھتے ہیں:

” و قال الحنفیة یقع عما  نواه إذا كان واجباً لا تطوعاً لأنه زمن أبيح له فطره فكان له صومه عن واجب عليه كغير شهر رمضان”.الفقہ الاسلامی : 3/ 98۔ 1697

فتاویٰ دارالعلوم سے بھی ہماری اس بات کی تائید ہوتی ہے۔

سوال : مسافر یا مریض اگر رمضان میں بنیت نفل روزہ رکھے تو نفل ہوگا یا فرض؟

الجواب: شامی میں ہے :"و حاصله أن المريض و المسافر لو نويا واجبا آخر  وقع عنه و لو نويا نفلاً أو أطلقا فعن رمضان "

 اس عبارت سے معلوم ہوا کہ مریض اور مسافر اگر نفل کی نیت کریں تو رمضان کا روزہ ہوگا اور اگر واجب آخر کی نیت کریں تو واجب آخر ہوگا۔  ( 6/ 345 )

فتاویٰ قاضی خان میں ہے:

"المريض أو المسافر إذا نوى في رمضان عن واجب آخر كان صومه عما نوى عند أبي حنيفة و عند صاحبيه يكون عن رمضان”.

 اور قاضی خان کی عادت شریفہ ہے کہ جو قول ان کے نزدیک راجح ہو اس قول کو پہلے ذکر کرتے ہیں ۔ کما مر فی اصول الافتاء۔ (فتاویٰ قاضیخان: 1/ 301 )

نوٹ از مفتی عبد الوحد صاحب: روزے سے اگر بیماری بڑھنے کا اندیشہ ہو تو واجب آخر کی نیت سے راوزہ  رکھنا جائز ہے۔

الجواب: مبسملاً و محمدلاً و مصلیاً و مسلماً

صاحبین کے نزدیک ایک ہی قول ہے کہ فرض روزہ ہوگا۔  

"و عنه في نية التطوع روايتان”۔( هداية: 1/ 230 )

” و إن صام النفل فهو عن رمضان في أصح الروايتين عن أبي حنيفة و عندهما رمضان كيف نوى و المريض على هذا”. ( خلاصة الفتاوى : 1/ 251 )

لہذا فتویٰ اس پر ہے  کہ مریض کا نفل کی نیت سے روزہ رکھنے کی صورت میں رمضان کا روزہ ہوگا کیونکہ یہ ہی امام صاحب اور صاحبین کے مذہبوں کے مطابق ہے۔

۶۔ مریض جو واجب آخر کی نیت کرے:

امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے دو روایتیں ہیں ایک واجب آخر کا روزہ ہونا، دوسری روایت جو اصح ہے فرض روزہ کا ہونا ہے اور صاحبین کے نزدیک ایک ہی قول ے کہ رمضان کا روزہ ہوگا۔

۱۔ ” لأن المريض إذا نوى عن واجب آخر فعن أبي حنيفة روايتان في رواية يقع عما نوى و في رواية و هي قولها يقع عن رمضان و هي الأصح”. شرح العيني على الكنز: 1/ 136 )

۲.” و إن نوى المريض عن واجب آخر فعنه روايتان قال في المجمع : و المريض في النية كالصحيح في الأصح”. (تبيين الحقائق: 2/ 153 )

۳.” و أما المريض فالصحيح أن صومه يقع عن رمضان كذا في محيط السرخسي”. ( الفتاوى الهندية: 1/ 196 )

٤.” لكن في أوائل الأشباه الصحيح وقوع الكل عن رمضان سوى المسافر نوى واجباً آخر و اختاره ابن كمال و في الشرنبلالية عن البرهان أنه الأصح قال الشامي: المراد بالكل هو ما إذا نوى المريض النفل أو أطلق أو نوى واجباً آخر فإنه يقع عنه لا عن رمضان لأن المسافر له أن يصوم فله أن يصرفه إلى واجب آخر لأن الرخصة متعلقة بمظنة الععجز و هوا لسفر و ذلك موجود بخلاف المريض فإنها متعلقة بحقيقة العجز فإذا صام تبين أنه غير عاجز”. ( شامي: 2/ 416 )

۵.” فأما المريض إذا نوى واجباً آخر فالصحيح أن صومه يقع عن رمضان لأن إباحة الفطر له عند العجز عن  أداء الصوم فأما عند القدرة هو و الصحيح سواء”. ( المبسوط: 3/ 66)

۶۔ فقہاء نے رمضان سے ہونے پر امام صاحب اور صاحبین کا اجماع نقل کیا ہے:

 ” و منهم من جعله عن رمضان كيف نوى بالإجماع”. (خلاصة الفتاوى: 1/ 251 )

۷۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے جن صورتوں میں دو روایتیں ہیں وہاں اصح رمضان سے ہونا ہے جیسے مسافر جو نفل کی نیت کرے (صورت نمبر 1) اور مریض جو نفل کی نیت کرے ( صورت نمبر 5 ) تو قیاس یہ ہے کہ یہاں جو امر واجب آخر کی نیت کرے اس میں بھی ان سے دو روایتیں ہیں منقول ہے اصح رمضان سے ہونا ہے۔

۸۔ اتفاق بین اصحابنا اولیٰ ہے اختلاف بینہم سے اس  ہی وجہ سے امام  صاحب اور صاحبین کے نزدیک مطلق نیت کرنے میں اور نفل نیت کرنے میں فتویٰ رمضان کا روزہ ہونے  کا ہے۔ تو قیاسا واجب آخر کی نیت میں بھی اتفاقی صورت پر فتویٰ ہو اور وہ رمضان کا روزہ ہو نا ہے۔

۹۔ ان فضائل کو حاصل کرنے کے لیے جو رمضان کا روزہ رکھنے میں ہیں واجب آخر کی نیت میں بھی مریض کا رمضان کا روزہ ہونے پر فتویٰ کا ہونا معقول ہے۔ ورنہ یہ سارے فضائل فوت ہوجائیں گے۔

حدیث نمبر1 : من أدى فريضة فيه كمن أدى سبعين فريضة فيما سواه. ( فضائل اعمال : 636 )

۱۰۔ ان وعیدوں سے بچنے کے لیے بھی مریض کا واجب آخر کی نیت سے روزہ کو رمضان سے ہونے کا فتویٰ دینا معقول ہے ورنہ رمضان کی قضاء ہوگی۔

حدیث نمبر 10: من أفطر يوما من رمضان من غير رخصه و لا مرض لم يقضه صوم الدهر كله و إن صامه”. ( فضائل اعمال 🙂

۱۱۔ مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی اس پر ہے کہ رمضان کا روزہ  ہو وہ بھی ہمارے بزرگوں میں ہے۔

” سوال: مسافر یا مریض رمضان میں نفل وغیرہ کی نیت سے روزہ رکھیں تو ان کا نفلی وغیرہ ہوگا یا فرض؟

 جواب: مسافر یا مریض رمضان میں اگر نفل کی نیت سے روزہ رکھیں گے تو وہ رمضان کا ہی ہوگا لیکن اگر مسافر کی دوسرے واجب کی نیت سے روزہ رکھے گا تو وہ اسی واجب کا ہوگا مریض کا اس صورت میں رمضان کا ہی روزہ ہوگا”۔ کفایت المفتی : 4/ 237

۱۲۔ مریض کا واجب آخر کی نیت سے روزہ رکھنے کی صورت میں  رمضان کا روزہ ہونا شیخ  فخر الاسلام اور شمس الائمہ کا مختار مذہب ہے، یہ دونوں مسائل میں تیسرے طبقہ کے لوگ ہیں اور ایک بڑی جماعت فقہاء کا بھی یہ ہی مختار ہے اس ہی وجہ سے صاحب بحر نے اس کو ذکر میں مقدم کیا۔

” و أما المريض إذا نوى و اجباًآخر أو نفلاً فيه ثلاثه أقوال فقيل: يقع عن رمضان لأنه لما صام التحق بالصحيح و اختاره فخر الإسلام و شمس الأئمة و جمع و صححه صاحب المجمع و قيل يقع عما نوى كالمسافر و اختاره صاحب الهداية و أكثر المشائخ و قيل بأنه ظاهر الرواية و قيل بالتفصيل”. ( البحر الرائق: 2/ 456 )

اس مریض کے متعلق تین اقوال میں سے تیسرے قول فتویٰ کے لیے نہیں لیا گیا باقی دوسرا قول اس میں محقق ابن ہمام نے فرمایا کہ یہ مخالف ہے جس کو صاحب ہدایہ نے اختیار  کیا اور اکثر المشائخ سے مراد صرف بخاری کے اکثر مشائخ اور جور وایت ظاہر الروایہ ہونے کی ہے ایک تو وہ ضعیف اس لیے محقق نے اس کو ” قیل” سے تعبیر کیا جب کہ پہلا قول کو ایسا نہیں کہا، اور خود صاحب مبسوط جو شارح ہے ظاہر الروایات کے پہلا قول  کو ظاہرالروایہ بنایا نہ کہ دوسرے قول کو۔

"و هذا الذي اختاره المصنف من التسوية بين المسافر و المريض مخالف لما ذكره العلمان في التحقيق فخر الإسلام و شمس الأئمة فإنهما قالا إذا نوى المريض عن واجب آخر فا لصحیح أنه يقع صومه عن رمضان”. (فتح القدير: 2/ 314 )

” و أما إخراج لمريض إذا نوى واجباً آخر و جعله كالمسافر فهو رواية عن الحسن عنه و هو اختيار صاحب الهداية و أكثر المشائخ بخارى. ( فتح القدير: 2/ 315)

” و قيل هو ظاهر الرواية”. ( شامي: 2/ 416 )

” فأما المريض إذا نوى واجباً آخر فالصحيح أن صومه يقع عن رمضان لأن إباحة الفطر له عند العجز عن أداء الصوم فأما عند القدرة هو و الصحيح سواء”. (المبسوط:3/ 66)

۱۳۔ مریض کا واجب آخر کی نیت سے واجب آخر کا ہونا شیخ کرخی اور ان کے متبعین کا مذہب ہے اور قول کرخی موؤل یا سہو ہے۔ لہذا وہ قول لینا جو غیر موؤل ہو اور صحیح ہو اور جس کے تصحیح بھی کی گئی ہو اولیٰ ہے۔

"و في البدائع : الكرخي سوى بين المسافر وا لمريض …. و قول الكرخي سهو أو موؤل”. (تبيين الحقائق: 2/ 153 )

” و قول الكرخي موؤل”. ( خلاصة الفتاوى : 1/ 251 )

۱۴۔  فتاویٰ میں بھی رمضان سے ہونے کو اختیار کیا گیا ہے جیسے خلاصتہ الفتاویٰ، الفتاویٰ الہندیہ، کفایت المفتی۔

۱۵۔ متون بھی اس پر ہیں۔جیسے کنز الدقائق، تنویر الابصار۔

۱۶۔ شروح بھی اس پر ہیں ، جیسے شامی، شرح العینی، المبسوط، فتح القدیر۔

۱۷۔ فتاویٰ دارالعلوم کی عبارت کا صحیح مطلب عبارت کونقل کرنے کے بعد کیا جائےگا۔ 6/ 345

"سوال: مسافر یا مریض اگر رمضان میں بنیت نفل روزہ رکھے تو نفل ہوگا یا فرض؟

جواب: شامی میں ہے: ” و حاصله أن المريض و المسافر لو نويا واجباً آخر وقع عنه و لو نويا نفلاً أو أطلقا فعن رمضان "

ا س عبارت سے معلوم ہوا کہ مریض اور مسافر اگر نفل کی نیت کریں تو رمضان کا روزہ ہوگا اور اگر واجب آخر کی نیت کریں تو واجب آخر ہوگافیہ تفصیل و اختلاف ۔

اوّلاً جاننا چاہیے کہ مفتی فتویٰ دینے میں مستفتی کی سوال پر فتویٰ دیتے ہیں اور یہ ہی اصل مقصود ہوتا ہے جیسے کہ اصول افتاء میں گذر گیا تو سوال میں نفل کی نیت ہے لہذا فتویٰ میں مقصود جواب بھی اس کا ہے۔ اسی  وجہ سے فتاویٰ دارالعلوم  والے نے دلیل کو اس جزء کے لیے پیش کا جس میں نفل کی نیت کی بات تھی اس تک پہنچنے تک واجب آخر کی نیت غیر مقصودی طور پر آیا یہ دلیل کی ترجمہ سے بھی معلوم ہوتا ہے اوّلاً نفل کی نیت کا ترجمہ کیا حالانکہ دلیل میں اوّلاً واجب آخر کا ذکر ہے ، اس وجہ سے ترجمہ میں ” اس عبارت سے ” کیا کہ نفل کی نیت سے روزہ رکھنے کی دلیل اس عبارت سے ثابت ہے گو واجب آخر بھی آگیا لیکن اس میں اختلاف تھا اور سوال بھی اس کا نہیں تھا تو ترجمہ میں اس کو مؤخر کر کے اختلاف اور تفصیل کے طرف متوجہ فرمایا۔

لہذا فتویٰ اس پر ہے کہ مریض کا واجب آخر کی نیت سے روزہ کھنے کی صورت میں رمضان کا ہوگا۔

نوٹ از مفتی عبدالواحد صاحب: مذکورہ صورت میں رمضان کا روزہ ہوگا۔

مریض کا رمضان میں واجب آخر کی نیت سے روزہ رکھے تو رمضان ہوگا یا واجب آخر؟ سے متعلق تفصیلی استفتاء:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بندہ جامعہ خدام اہل سنت تعلیم القرآن لاہور میں درجہ تخصص فی الافتاء میں زیر تعلیم ہے۔ بندہ اور ایک ساتھی کے درمیان مذکورہ فتویٰ کے متعلق اختلاف ہو گیا، ساتھی نے بھی اس کے متعلق کچھ  لکھا اور اس ناسمجھ نے بھی کچھ لکھا ہے۔ امید ہے کہ جناب والا اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر اسے ملاحظہ فرمالیں گے۔ اور رائے عالی سے جس قدر ممکن ہو مطلع فرمائیں گے۔ دونوں کے لکھے ہوئے فتوے پیش خدمت ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

دونوں قول وزنی ہیں اور ہرجانب قوی دلائل اور بڑے حضرات ہیں۔ اب ان دونوں میں سے کس کو ترجیح دیں۔ بظاہر ترجیح دوسرے قول کو ہے کیونکہ اس کے یہ اسباب ہیں:

.i علیہ الاکثر۔

.ii ہو الاصح۔

.iii قیل بانہ ظاہر الروایۃ۔

.iv متون میں اس کو  اختیار کیا ہے ” اختارہ المصنف تبعا للدرر۔

.v موجود رمضان کا اپنا حق ہے کہ بندہ اس کی رعایت کو مقدم رکھے۔

.vi صاحبین کا قول ہے اور امام صاحب کی ایک روایت بھی موافق ہے۔

کوئی پہلے قول کو ترجیح دے تو منطقی طریقہ سے وہ موجہ ہے لیکن دوسرے قول کو اصول کی رو سے ترجیح حاصل ہے۔ یہ ترجیح اپنی سمجھ کے مطابق دی ہے۔ اگر کوئی قبول نہ کرے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved