• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مذکورہ بالا فتویٰ نمبر 7/ 350 سے متعلق

استفتاء

محترم جناب مفتی صاحب السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

جائیداد کی تفصیل: نمبر 1۔ 9 مرلہ تعمیر شدہ مکان خرید کردہ 1968- 07- 15۔ نمبر 2۔ 10 مرلہ فرنٹ مین روڈ خرید کردہ 1976- 05- 28۔ دونوں جائیدادوں کی موجودہ مارکیٹ ویلیو تقریباً 4/1- 1 کروڑ روپے ہے۔

ہم تین بھائی اور دو بہنیں ہیں، دونوں بہنیں بڑی ہیں۔ والدہ محترمہ کا وصال 1953ء میں ہو گیا۔ بڑی بہنوں نے بھائیوں کی پرورش کی، جبکہ بڑے بھائی نے میٹرک کے بعد نوکری کر کے منجھلے بھائی کو پڑھایا، اور منجھلے بھائی نے چھوٹے بھائی کو پڑھایا، گھر کا سارا نظام اجتماعی اور مشترکہ تھا، اور سب بھائی حسب مقدور گھر خرچہ دیا کرتے تھے، تاہم بڑے بھائی مالی حالت بہتر نہ ہونے کی وجہ سے باقاعدہ تو خرچہ نہ دیتے تھے۔ تاہم بھائیوں کی شادیوں اور دیگر ضروریات کا خیال رکھتے تھے، اس طرح یہ فیملی اخوت اور محبت سے والد صاحب کی سرپرستی میں پروان چڑھتی رہی۔

1976ء میں ہمارے گھر کے فرنٹ پر مین روڈ پر 10 مرلہ کا پلاٹ 10000 روپے میں خریدا، جس کی رقم کی ادائیگی بڑے اور چھوٹے بھائی کی یاد داشت کے مطابق مشترکہ طور پر ادا کی گئی جبکہ منجھلے بھائی اور ہمشیران کی یاد داشت کے مطابق نصف منجھلے بھائی نے اور نصف مشترکہ کھاتے سے ادا کی گئی، اور مذکورہ زمین والد صاحب کے نام رجسٹر کروا دی گئی، اور تمام قبضہ اور اصل کاغذات والد صاحب کے پاس تھے، اور ساری فیملی والد صاحب کو ہی اس زمین کا مالک سمجھتی تھی، والد صاحب بھی اس زمین کو اپنی ملکیت سمجھتے تھے، اس لیے حج پر روانگی سے قبل اس زمین کے بارے میں وصیت بھی لکھی۔ والد صاحب کی زندگی میں منجھلے بھائی نے کبھی اس بات کا ذکر نہ کیا کہ فرنٹ والی زمین پر زیادہ سرمایہ میرا لگا ہے، لہذا یہ زمین میں والد صاحب کے نام محض خوشنودی یا کسی مصلحت کے لیے رجسٹری کروائی ہے، اور یہ وراثت میں شامل نہ ہے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد منجھلے بھائی نے اپنی بیٹی کی شادی ہمارے بھانجے سے کردی، اور بہنوں کے ساتھ مل کر جائیداد اپنے داماد کو دینے کی خاطر یہ بات کہنا شروع کردی کہ فرنٹ والی زمین پر وراثتی قانون نافذ نہیں ہو گا، کیونکہ اس کی رقم میں نے ادا کی تھی۔ اور یہ والد صاحب کے نام محض خوشنودی یا کسی مصلحت کے لیے رجسٹری کروا دی تھی، زمین کسی کے نام کروانے سے اس کی ملکیت نہیں ہوتی۔

اب منجھلا بھائی اور دونوں بہنیں بمع بھانجہ زمین پر قابض ہیں۔ اور بہنوں نے بھی اپنے حصے بھائی کے داماد یعنی اپنے بیٹے کے نام کروا دیے ہیں، جبکہ بڑے اور چھوٹے بھائی کو یہ کہتے ہیں کہ پچھلی زمین پر تو وراثت کا قانون نافذ ہوتا ہے، مگر فرنٹ والی زمین پر وراثت لاگو نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ اصل قیمتی زمین فرنٹ والی ہے، جس سے انہیں ماہانہ خاطر خواہ کرایہ بھی وصول ہو رہا ہے۔

سوال: مذکورہ بالا تفصیل کی روشنی میں علماء کرام سے یہ رہنمائی حاصل کرنا مطلوب ہے کہ خرید کردہ فرنٹ والی زمین والد صاحب کے نام رجسٹری کروانے کے بعد والد صاحب کی زندگی میں کبھی بھی منجھلے بھائی نے یہ نہ کہا کہ زمین تو میری ہی ملکیت ہے ، مگر کسی مصلحت کے تحت والد صاحب کے نام کروائی ہے۔ مزید برآں والد صاحب بھی مذکورہ زمین کو اپنی ہی ملکیت سمجھتے تھے، اس کے اصل کاغذات اور قبضہ والد محترم کے پاس ہی تھا۔ اور والد مرحوم نے اس زمین کے بارے میں ایک وصیت بھی لکھوائی تھی۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا فرنٹ والی زمین والد مرحوم کے ترکہ میں شامل ہو کر سب شرعی وارثوں پر شرعی ضابطہ کے مطابق تقسیم ہو گی یا نہیں؟ رہنمائی فرما کر اور سوال کا جواب دے کر عند اللہ ماجور ہوں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

وعلیکم السلام و رحمة اللہ

آپ کا سوال نامہ موصول ہوا۔ اس سے پہلے بھی آپ کے بھیجے ہوئے سوال نامے موصول ہوئے تھے اور منسلکہ فتوے بھی۔

1۔ موجودہ سوالنامہ میں آپ نے لکھا ہے کہ آپ کی یاد داشت کے مطابق فرنٹ کا پلاٹ مشترکہ مال سے خریدا گیا تھا۔ جو تحریری میں نے لکھی تھی اس میں اس بات کا اعتبار کیا تھا کہ فرنٹ آپ کے والد کا ترکہ ہے۔

2۔ سابقہ ایک سوالنامہ میں آپ نے لکھا "میں اور میرا درمیانہ بھائی والد صاحب کی وراثت سے حصہ لینا نہیں چاہتے”۔ ایک اور جگہ آپ نے لکھا "تقریباً سات آٹھ سال قبل ہمشیران جب بھی وراثت کی بات کرتیں، میں کہہ دیتا اگر بڑا بھائی حصہ مانگے گا تو میں دوں گا”۔

لیکن اب آپ چاہتے ہیں کہ اپنا وعدہ پورا نہ کریں اور نہ اپنا حصہ چھوڑیں، کیونکہ آپ کے بقول "جب میں نے وعدہ کیا تھا حالات بہت مختلف تھے۔ اس وقت زمین کی قیمت اتنی زیادہ نہ تھی۔ میرا کاروبار بھی الحمد للہ ٹھیک ٹھاک تھا ۔۔۔۔ اب میں اپنا حصہ بھی چھوڑوں اور بھائی کی طرف سے اس کا حصہ بھی ادا کروں”۔

مسلمان کا وعدہ وعدہ ہوتا ہے، وہ جب وعدہ کرتا ہے تو اس کو پورا کرتا ہے۔ یہ منافق کی نشانی ہے کہ وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے۔ اگرچہ مجھے آپ کے موجودہ کاروباری حالات کی تفصیل معلوم نہیں لیکن اتنا اندازہ ہے کہ اگرچہ آپ کو پلاٹ میں سے ابھی تک کچھ نہیں ملا لیکن آپ کا گذارہ چل رہا ہے۔ اگر آپ حصہ نہیں لیں گے اور بہنوں کو گفٹ کردیں تب بھی انشاء اللہ آپ کا گذارہ چلتا رہے گا۔ مقدر کی چیز مل کر ہی رہتی ہے، اور جو مقدر کی نہ ہو وہ کبھی نہ ملے گی۔ پھر صلہ رحمی بڑی چیز ہے اور وہ بھی ان بہنوں کے ساتھ جنہوں نے آپ کو ماں کا متبادل دیا۔ آپ اپنا دل  چھوٹا نہ کریں، بڑا ہی رکھیں۔ پھر اس میں آپ کے والد کی خواہش بھی پوری ہوتی ہے۔ یہ بھی تابعداری کی علامت ہے۔

بڑے بھائی کے حصہ مانگنے کی صورت میں جتنی تخفیف اور آسانی نظر آئی وہ بتا دی تھی۔

یہ سب کچھ آپ کی بتائی ہوئی معلومات کی روشنی میں آپ کی خیر خواہی میں لکھا ہے۔ و السلام علیکم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved