• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

میاں بیوی میں اختلاف

استفتاء

بیوی کا بیان

1۔ تقریباً 13 سال قبل والدین نے میری شادی *** نامی ایک شخص سے کی، جو *** میں رہائش پذیر تھا، اور وہاں کاروبار کرتا تھا، لاہور میں اس کا کوئی گھر بار نہیں تھا، اس لیے 9 سال میں اپنے والدین کے گھر رہی، میرا خاوند سال میں چار پانچ ماہ کے لیے *** آتا اور میرے والدین کے گھر ہی رہتا تھا، اس عرصہ میں ہمارے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں، جن کی موجودہ عمریں تقریباً چھ، نو اور بارہ سال ہیں، میرے خاوند کا مزاج نہایت سخت اور گرم ہے، وجہ بے وجہ غصہ میں آ جاتا ہے، بچوں کی موجودگی میں مجھے اور انہیں ننگی ننگی گالیاں دیتا ہے، اور جسمانی تشدد کرتا ہے۔

2۔ شادی کے تیسرے سال لڑائی کے دوران اس نے میرے والدین کی موجودی میں مجھے کہا کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں”، اور اس کے اگلے ہی دن رجوع کر لیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ایک اور لڑائی میں اس نے کہا "میری طرف سے فارغ ہو”۔ چار سال قبل میرے شوہر نے *** میں ایک گھر بنایا جس میں ہم لوگ شفٹ ہو گئے، نئے گھر میں میرے شوہر کا رویہ پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گیا۔ 2013-6-15 کو ایک جھگڑے کے دوران اس نے مجھے بچوں کی موجودگی میں کہا "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”۔ اس واقعہ کے بعد میں بچوں کو لے کر اپنے والدین کے گھر آ گئی ہوں۔

مندرجہ بالا حالات کے ہوتے ہوئے، میری رہنمائی فرمائی جائے کہ ہماری ازواجی زندگی کی کیا حیثیت ہے؟

میں حلفاً بیان کرتی ہوں کہ مندرجہ بالا واقعات میرے علم کے مطابق درست ہیں۔

لڑکی کے والد کا بیان حلفی

تقریباً 13سال قبل میں نے اپنی بیٹی ***کی شادی *** سے کی، جو کہ *** میں رہائش پذیر تھا، *** میں اس کا اپنا گھر نہیں تھا، سال کے بعد تین چار ماہ کے لیے *** آتا اور ہمارے گھر رہتا، ہماری بیٹی پہلے ہی یہاں رہتی تھی، *** کی عادت اور طبیعت سے ہم بالکل نا واقف تھے، یہ شخص طبیعت کا بہت غصہ والا ہے، وجہ بے وجہ غصہ میں آ جاتا ہے، ننگی ننگی گالیاں دیتا ہے، اور بیوی پر جسمانی تشدد بھی کرتا ہے، غصہ میں پاگلوں جیسی حالت ہو جاتی ہے، اور سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شادی کے تیسرے سال گھر میں لڑائی میں اس نے اپنی بیوی کو کہا "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں”۔

یہ *** کی دوسری شادی ہے، لنڈن میں پہلی شادی تھی جس سے بچے بھی ہیں، سنا ہے پہلے بیوی بچے اس کے اسی غصہ کی وجہ سے علیحدہ ہو گئے تھے، پھر یہ دوسری شادی کی، پہلی بیوی نے طلاق لے لی۔ میں حلفاً بیان کرتا ہوں کہ مندرجہ بالا واقعات میرے علم کے مطابق درست ہیں۔

وضاحت مطلوب ہے: کہ سائلہ کا جو بیان جامعہ اشرفیہ اور جامعہ نعیمیہ کے فتوؤں کے ساتھ منسلک ہے اس میں الفاظ طلاق یوں ہیں: "میں تمہیں طلاق، طلاق دیتا ہوں”۔ کافی عرصہ بعد کہا "میں تمہیں طلاق، طلاق دیتا ہوں”۔

جبکہ جو بیان سائلہ اور اس کے والد نے یہاں جمع کروایا ہے اس میں طلاق کے الفاظ یوں ہیں: "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” ، اور اسی طرح 13-6- 15 کو کہا۔

ان دونوں طرح کے الفاظ میں سے کونسے الفاظ صحیح ہیں؟ (دار الافتاء)

جواب :"میں تمہیں طلاق، طلاق دیتا ہوں” کے الفاظ صحیح ہیں۔

شوہر کا بیانِ حلفی

یہ کہ میں *** ولد***حلفاً اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میرا میری بیوی ***کے ساتھ مختلف اوقات میں گھریلو جھگڑے ہوے، مگر میں نے کبھی بھی اپنی بیوی کو طلاق نہیں دی، ہاں البتہ ایک دفعہ دوران لڑائی میں نے اپنی بیوی سے پوچھا تھا کہ "کیا تم مجھ سے  طلاق چاہتی ہو تو میں تم کو طلاق دے دتیا ہوں”، اس کے علاوہ میں نے کبھی بھی طلاق کا لفظ استعمال نہ کیا ہے، اور نہ ہی کبھی آئندہ کروں گا۔ یہ کہ میں اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہتا ہوں۔

یہ کہ اس تمام تر بیان میں نے اللہ پاک کو اپنا گواہ بنا کر تمام تر تحریر بیان کی، اگر میں نے جھوٹ لکھا ہو تو میں اللہ پاک کا دین دار ہو گا، تمام تر تحریر لکھ دی ہے تاکہ سند رہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں شوہر کے بیان کے مطابق اگرچہ طلاق نہیں ہوئی، لیکن چونکہ عورت نے خود طلاق کے الفاظ سنے ہیں اور عورت کو یقین بھی ہے، لہذا عورت کے بیان کے مطابق، عورت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ اپنے حق میں تین طلاقیں سمجھے اور شوہر کو ازدواجی تعلقات کا موقع نہ دے۔

فتاویٰ شامیہ میں ہے:

و المرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه. فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved