- فتوی نمبر: 9-217
- تاریخ: 09 دسمبر 2016
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ایک مسئلے کا حل درکار ہے۔ اور وہ مسئلہ یہ ہے کہ آج کل جو پیکج سموں پر کمپنی کی طرف سے آتے ہیں، ان میں سے ایک کمپنی مثلاً ’’جاز‘‘ کی طرف سے پیکج ہے کہ آپ اپنے نمبر پر ہر ہفتے 75 روپے کا بیلنس کروائیں گے تو کمپنی کی طرف سے 700 منٹس، اور 700 ایس ایم ایس وغیرہ کمپنی دیتی ہے، مفت میں اور جو بیلنس کروایا ہے، وہ اسی طرح محفوظ رہتا ہے، مثلاً 75 روپے کا کرواتے ہیں تو 56 روپے آتے ہیں اور وہ 56 روپے اسی طرح آپ کے پاس ہر ہفتے جمع ہوتے جائیں گے، جو آپ نے ہر ہفتے اپنے نمبر پر لوڈ کروانے ہیں، اگر آپ استعمال کرنا چاہیں گے تو ہوں گے، کسی دوسرے نیٹ ورک پر وگرنہ تو وہ محفوظ ہیں، اور جو منٹس وغیرہ ملتے ہیں تو وہ ’’جاز‘‘ سے ’’جاز‘‘ کر سکتے ہیں، تو گویا دونوں چیزیں میری ملک میں ہیں، اب جو ہر ہفتے بیلنس جمع کیا ہوا ہو تو اس کی ایک صورت یہ ہے کہ بیلنس کال کے ذریعے سے ختم کریں، اور ایک صورت یہ ہے کہ آپ بیلنس کسی کو بیچ دیں تو آیا اس دوسری صورت یعنی بیلنس کو بیچنے والی اس کے اندر بیلنس کو بیچنے سے پیسے اگر حاصل ہوں تو کیا وہ پیسے حاصل کرنا سود ہو گا؟
(تفصیل کے لیے دیکھیے ’’فقہ البیوع‘‘ از مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ)
حکومتی قوانین کی حتی الامکان پاسداری کرنی چاہیے، لیکن اگر حکومت قانون سازی کے بعد اس قانون کے نفاذ میں خود تساہل برتے تو اس قانون پر عمل کرنا شرعاً ضروری نہیں رہتا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اولاً یہ بات ذہن نشین رہے کہ حکومتی قوانین کی حتی الامکان پاسداری کرنی چاہیے، لیکن قانون سازی کے بعد جب حکومت قانون کے نفاذ میں تساہل برتے اور قدرت کے باوجود قانون کی خلاف ورزی نہ روکے، تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت کی اس کو خاموش رضا مندی حاصل ہے۔ اس وضاحت کے بعد جواب یہ ہے کہ
سوال میں ذکر کردہ منی چینجر کے دونوں کام جائز ہیں۔ لیکن سودا کرتے وقت دونوں طرف سے یا کسی ایک طرف سے نقد ادائیگی ضروری ہے۔ یا تو منی چینجر کسٹمر کو ادائیگی کر دے یا کسمٹر سے وصول کر لے۔ سودے کے وقت کسی بھی طرف نقد ادائیگی نہ ہونا خرابی سے خالی نہیں ہے۔ اس لیے ٹیلی فون وغیرہ پر منی چینجر کسٹمر کو اپنا ریٹ بتائے سودا نہ کرے۔
نیز مشکوک قسم کے لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب بہتر ہے، تاکہ ان کی وجہ سے کسی پریشانی میں مبتلا نہ ہوں۔
استفتاء
2۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ میرے نمبر پر بیلنس کروا دو، تاکہ اس کی وجہ سے مجھے منٹس وغیرہ مل جائیں گے تو پھر بیلنس جو ہو گا وہ میں دوبارہ آپ کے نمبر پر بھیج دوں گا، تو وہ 75 کا بیلنس کرواتا ہے، تو 56 روپے آتے ہیں، تو اس کی وجہ سے کمپنی منٹس وغیرہ دے دیتی ہے، اب جو 56 روپے ہیں ان کو اگر میں اس کے نمبر پر بھیجوں گا تو 51 روپے اس کے پہنچیں گے، گویا پانچ روپے کمپنی بھیجنے کی کاٹے گی، تو پھر میرے لیے وہ منٹس اور ایس ایم ایس وغیرہ استعمال کرنا کیسا ہے؟ کیونکہ منٹس وغیرہ نکلوا نہیں سکتے ہیں، بلکہ صرف استعمال کے لیے ہوتے ہیں، لیکن میں نے اس کے پیسوں سے نفع حاصل کیا ہے۔
وضاحت: 1۔ 700 منٹ والا پیکج صرف جو نئی سمیں آرہی ہیں ان میں ہے، ہر سم پر نہیں ہے۔
2۔ دوسرے نمبر پر شیئر یعنی پیسے بھیجنے پر 3 روپے علاوہ ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ اپنا بیلنس بیچ کر پیسے حاصل کرنا جائز ہے۔ یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا۔
2۔ اس صورت میں جو شخص آپ کو 75 روپے کا بیلنس کروا کے دے گا، اسے آخر میں 51 روپے کا بیلنس ملے گا۔ جس میں آپ کو فائدہ پہنچانے کی خاطر خود کچھ نہ کچھ نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ لہذا اگر وہ راضی ہو تو ایسا کر سکتے ہیں۔ فقط و اللہ تعالٰی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved