• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

موبائل میسج کے ذریعے طلاق

استفتاء

حلفیہ بیان (صداقت)

1۔ پہلے گھر میں فون پر بات چیت ہوئی، مجھ سے سدرہ نے اپنے والدین کے ہاں جانے کے لیے پوچھا کہ میری خالہ آئی ہوئی ہیں ملنے جاؤں گی تو میں نے (صداقت گیلانی) اسے دو دن رہنے کے لیے کہا تو چلی گئی۔

***اپنے والدین کے گھر پہنچ کر مجھ سے میسج پر بات کرنے لگی اور کہنے لگی میں اب واپس سسرال نہیں جاؤں گی۔ میرے رشتہ دار مجھ سے اب ملنے لگے ہیں میں اب آرام سے ہی جاؤں گی، لہذا تنگ کرنے کی کوشش مت کرنا کہ میں واپس جاؤں گی۔

3۔ میں نے اب واپس نہیں جانا ہے۔

4۔ نہیں سنبھال سکتے فارغ  کردو، میں تنگ ہوں، میرا خیال نہیں رکھتے ہو۔

5۔ میں نے بڑا کہا کہ ایسی باتیں مت کرو، مگر مجھے ایسی باتوں سے زور دیا گیا تو میں نے غصے سے میسج کے ذریعے تین دفعہ لکھ کر "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں” Send کر دیا۔

میسج تین الگ الگ بھیجے اور لکھے تھے، ہر ایک میسج میں ایک طلاق لکھی تھی۔ طلاق لکھتے ہوئے میرے ذہن میں بس غصہ تھا اور کچھ نہیں تھا۔  پہلے میسج کے 15 بیس سیکنڈ بعد دوسرا لکھا، پھر اسی طرح تیسرا لکھا تھا۔

6۔ میرے پاس اس وقت نہ کوئی فرد موجود تھا اور نہ میں نے کسی کو بتایا اور نہ قولاً کہا ہے۔

7۔ اس سلسلے کے بعد ہمارے باقاعدہ کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔

یہ واقعہ 2 ماہ 14 دن پہلے کا ہے۔ برائے مہربانی اس مسئلے کا حل نکال کر بتائیں کہ یہ طلاق واقع ہوئی کہ نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی۔ کیونکہ موبائل فون میسج پیغام پہنچانے کا ذریعہ تو ہے، لیکن طلاق نامہ کے طور پر متعارف نہیں ہے، لہذا مذکورہ واقعہ میں موبائل پر طلاق کی تحریر مرسوم نہیں ہے، صرف اتنے  الفاظ  ہیں کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں”۔ طلاق کی متعارف تحریر وہ ہے جو باقاعدہ سٹیمپ پیپر پر طلاق نامہ ہو یا اس کی مثل ہو۔ موبائل پر بھیجی ہوئی تحریر جب مرسوم اور مصدر نہیں ہے تو اس میں شوہر کی نیت کا اعتبار ہو گا، اگر وہ کہتا ہے کہ اس کی نیت طلاق دینے کی نہ تھی صرف غصہ کا اظہار کرنا مقصود تھا جس کا مطلب یہ ہو گا کہ بیوی کو پریشان کرنا مقصود تھا، تو اس صورت میں طلاق نہ ہو گی۔

المقصود من المرسوم أن يكون علی الوجه المعتاد في إظهار الأمر عرفاً كالكتب المعنونة و المحاضر و السجلات و القصص و نحوها. (تبيين الحقائق)

فأما إن كتب ذلك من غير نية …. علی روايتين. أحدهما يقع و هو قول الشعبي … و الثانية لا

يقع إلا بنية و هو قول أبي حنيفة و مالك و منصوص الشافعي لأن الكتابة محتملة فإنه يقصد بها تجربة القلم و تجويد الخط و غم الأهل من غير نية ككنايات الطلاق فإن نوی بذلك تجويد خطه و تجربة قلمه لم يقع لأنه لو نوی باللفظ غير الإيقاع لم يقع فالكتابة أولی، و إذا ادعی ذلك دين فيما بينه و بين الله. (المغني لابن قدامة: 7/ 412) فقط و الله تعالی أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved