- فتوی نمبر: 10-147
- تاریخ: 29 اگست 2017
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
محترم مفتی صاحب ایک مسئلہ دریافت کرنا ہے کہ آج کل کاروبار رائج ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک کمپنی ہے وہ موٹر سائیکل جو تقریباً 36-37 ہزار کی ملتی ہے، لوگوں کو 25 ہزار میں اس شرط پر فروخت کرتی ہے کہ 25 ہزار پانچ سو روپے آج دے دو اور 45 دن کے بعد وہ موٹر سائیکل مل جائے گی، 45 دن کے بعد وہ موٹر سائیکل دے دیتی ہے اور ساتھ یہ آفر بھی دیتی ہے کہ چاہو تو اس کو لے جاؤ اور اگر اس کو فروخت کرنا چاہو تو ہمیں 31 ہزار میں فروخت کر دو۔ ایک ایک شخص اس طرح کئی موٹر سائیکل کی بکنگ کروا کر بیچ دیتا ہے اور نفع کماتا ہے، یہ کام موٹر سائیکل کے علاوہ اور چیزوں میں بھی کر رہی ہے۔ 45 دن کے بعد اکثر موٹر سائیکل شو روم میں موجود ہوتی ہیں بعض اوقات شوروم مین موٹر سائیکل موقع پر نہیں ہوتی اور گاہک کمپنی کو موٹر سائیکل 31000 میں بیچ دیتا ہے۔ دوسرا کام یہ کرتی ہے کہ جو ان کا گاہک دیگر گاہک لے کر آتا ہے اسے بھی موٹر سائیکل کی قیمت میں سے کچھ کمیشن دیتی ہے، بالواسطہ آنے والے گاہکوں کی جب ایک خاص تعداد ہو جاتی ہے تو ان کا کمیشن بھی ملنے لگتا ہے، اور ایک خاص حد پر جاکر ابتدائی گاہک کو گاڑی تک بھی کمپنی انعام میں دے دیتی ہے۔
اپنے گاہکوں کا کمیشن لینے کے لیے خود موٹر سائیکل خریدنا ضروری ہے۔ آگے گاہک لانے کی ترتیب یہ ہے کہ تین گاہک لاؤ پھر وہ تین تین گاہک لائیں، یوں نیچے سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے اور مختلف مراحل پر پہلے شخص کو گاڑی وغیرہ مختلف بونس ملتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ:
1۔ مذکورہ بالا طریقے سے اپنی ضرورت کے لیے موٹر سائیکل لینا جائز ہے؟
2۔ صرف انویسمنٹ کے لیے اور نفع کمانے کے لیے ایسا کرنا جائز ہے؟
3۔ آگے گاہک بنا کر براہ راست یا بالواسطہ کمیشن لینا جائز ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں متعدد خرابیاں ہیں:
1۔ کمپنی گاہک کو یہ پیشکش کرتی ہے کہ ’’چاہو تو اس موٹر سائیکل کو لے جاؤ اور اگر اس کو فروخت کرنا چاہو تو ہمیں 31 ہزار میں فروخت کر دو‘‘۔
اس پیشکش کی بنیاد پر بہت سارے لوگ 25 ہزار روپے صرف اس وجہ سے جمع کروائیں گے تاکہ وہ موقعہ پر کمپنی کو موٹر سائیکل فروخت کر کے 6 ہزار روپے کا فائدہ حاصل کر سکیں۔ اس صورت میں بعض اوقات تو کسٹمر موٹر سائیکل پر قبضہ کی زحمت بھی گوارا نہ کرے گا اور خریدی ہوئی چیز پر قبضہ سے پہلے خود بیچنے والے کو وہ چیز دوبارہ نفع رکھ کر بیچ دے گا۔ جبکہ قبضہ سے پہلے خود بیچنے والے کو نفع رکھ کر وہ چیز دوبارہ بیچ دینا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں۔
اور اگر خریدار موٹرسائیکل پر قبضہ کرنے کے بعد بیچنے والی کمپنی کو یہ موٹر سائیکل نفع میں فروخت کرے گا تو یہ صورت بھی جائز نہیں کیونکہ اسکیم ہونے کی وجہ سے سود پر قرضہ لینے کا یہ ایک مستقل حیلہ بن جائے گا۔ نیز اس آفر کی وجہ سے اگر خریدار کمپنی کو بیچنا چاہے تو کمپنی انکار نہیں کر سکتی۔ جس کی وجہ سے بیچنے کو واپس خریدنے کے ساتھ مشروط کیا جا رہا ہے، گو یہ شرط ایک جانب سے ہو۔
2۔ جو لوگ بکنگ کروا کر آگے بیچیں گے وہ عموماً موٹر سائیکل پر قبضہ کرنے سے پہلے بیچیں گے جس سے مسلم فیہ میں قبل القبض تصرف کرنا لازم آتا ہے اور بیع الدین من غیر من علیہ الدین کی صورت بنتی ہے جو کہ ناجائز ہے۔
3۔ بعض صورتوں میں پہلے گاہک کو ان گاہکوں کا بھی کمیشن ملے گا جو اس نے براہ راست گاہک نہیں بنائے حالانکہ ایسے گاہکوں کا کمیشن لینا جائز نہیں۔
مذکورہ بالا خرابیوں کے پیش نظر یہ اسکیم جائز نہیں۔
الفتاویٰ الهندیة (3/14، دار الكتب العلمية، بیروت):
هذا إذا تصرف المشتري في المنقول المشترى قبل القبض مع أجنبي وأما إذا تصرف فيه مع بائعه فإن باعه منه لم يجز بيعه أصلا قبل القبض.
الدر المختار (7/369)
(صح بيع عقار لا يخشى هلاكه قبل قبضه) من بائعه …. (لا) يصح اتفاقا ككتابة وإجارة و (بيع منقول) قبل قبضه ولو ما بائعه كما سيجيء…….. (و) المنقول (لو وهبه من البائع قبل قبضه فقبله) البائع (انتقض البيع ولو باعه منه قبله لم يصح) هذا البيع ولم ينتقض البيع الأول لأن الهبة مجاز عن الإقامة بخلاف بيعه قبله فإنه باطل مطلقا.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام لعلي حيدر (1/ 236، دار الجيل)
للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضه إن كان عقاراً. (مجلة)
وقول المجلة ( لآخر ) معناه لغير البائع لأنه لا يجوز للمشتري أن يبيع العقار من بائعه قبل القبض وإذا فعل فالبيع فاسد كما في بيع المنقول.
شرح المجلة للأتاسي (2/174):
والتقييد بكون البيع لآخر احتراز عن بيعه لبائعه قبل قبضه فإنه فاسد كما في المنقول ويراجع طحطاوي، قلت: ويؤيده ما في الخانية باع المبيع من البائع قبل القبض لا يجوز البيع الثاني ولا ينفسخ الأول فقوله باع المبيع يعم العقار و المنقول.
التاج والإكليل (6/ 422، دار عالم الكتب)
قال مالك كل ما ابتعته أو أسلمت فيه عدا الطعام والشراب من سائر العروض على عد أو كيل أو وصن فجائز بيع ذلك كله قبل قبضه وقبل أجله من غير بائعك بمثل رأس مالك أو أقل أو أكثر نقدا أو بما شئت من الأثمان إلا أن تبيعه بمثل صنفه فلا خير فيه يريد أقل أو أكثر فأما مثل عدده أو وزنه أو كيله فقال في كتاب الهبات إن كانت المنفعة للمبتاع لم يجز وإن كانت للبائع جاز وهو قرض.
قال مالك وجائز بيع ذلك السلم من بائعك بمثل الثمن فأقل منه نقدا قبل الأجل أو بعده وأما بأكثر من الثمن فلا يجوز بحال حل الأجل أم لا لأن سلمك صار لغوا فهذا سلف جر نفعاً.
المدونة الكبريى (4/ 89 دار الحديث قاهره)
قلت وما سوى الطعام والشراب مما سلفت فيه كيلا أو وزنا فلا بأس أن أبيعه قبل أن أقبضه من الذي باعني أو من غيره قال قال مالك لا بأس أن تبيع ما سلفت فيه إذا كان من غير ما يؤكل ويشرب من غير الذي عليه ذلك السلف بأقل أو بأكثر أو بمثل ذلك إذا انتقدت وأما الذي عليه السلف فلا تبيعه منه قبل الأجل بأكثر ولا تبيعه منه إلا بمثل الثمن أو بأقل ويقبض ذلك.
قلت أرأيت إن سلفت في حنطة أو في عرض من العروض وحل الأجل فأردت أن آخذ بعض رأس مالي وآخذ بعض سلفي قال قال مالك لا خير في أن يسلف في شيء من الأشياء عرضا ولا حيوانا ولا طعاما ولا شيئا من الأشياء إلى أجل معلوم فتقبض بعض سلمك وتقيله من بعض لأنك إذا فعلت ذلك كان بيعا وسلفا في العروض والطعام ويصير في الطعام مع بيع وسلف بيع الطعام قبل أن يستوفى وما سلفت فيه من العروض إلى أجل من الآجال فأردت أن تبيعه من صاحبه فلا بأس أن تبيعه منه بمثل الثمن الذي دفعته إليه أو أدنى منه قبل محل الأجل لأنه لا يتهم في أن يدفع عشرة دنانير ويأخذ ثمانية حل الأجل فيه أو لم يحل ولا يصلح أن تبيعه من الذي عليه السلف بأكثر مما أعطاه فيه حل في ذلك الأجل أو لم يحل وإن أردت أن تبيعه من غير صاحبه فلا بأس أن تبيعه منه بما شئت بمثل الثمن أو أكثر أو أقل أو ذهب أو ورق أو عرض من العروض أو طعام إلا أن يكون من صنفه بعينه فلا خير فيه ولا بأس أن تبيعه من صاحبه وإن لم يحل الأجل بما يجوز لك أن تسلف الذي لك عليه فيه إن كان الذي لك عليه ثيابا فرقبية فلا بأس أن تبيعها قبل محل الأجل بثياب قطن مروية أو هروية أو خيل أو غنم أو بغال أو حمير أو بقر أو إبل أو لحم أو طعام تقبضه مكانك ولا تؤخره وإن أردت أن تأخذ منه ثيابا فرقبية قبل محل الأجل فلا تأخذ منه أكثر من عددها وإن كانت هذه التي تأخذ أفضل من رقاعها أو كانت أشر من رقاعها واختلف العدد أو اتفق فلا خير فيه ولا خير في أن تأخذ منها قبل محل الأجل إلا بمثل صفتها في جودتها إن حل الأجل فخذ منها أرفع من صفتها أو أكثر عددا أو أقل من عددها أو خيرا من صفتها أو أكثر من عددا أو أشر من صفتها فلا بأس به إذا حل الأجل على حال من الحالات……… فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved