- فتوی نمبر: 29-42
- تاریخ: 22 اپریل 2023
- عنوانات: مالی معاملات > قرض و ادھار
استفتاء
سرکاری ملازمین کی ماہانہ تنخواہ میں سے گورنمنٹ قوانین کے تحت طے شدہ ریٹس کے مطابق جی پی فنڈ کی مد میں کٹوتی ہوتی ہے ، یہ رقم سروس (ملازمت) کے اختتام پر ملازم کو کچھ اضافے کے ساتھ واپس کی جاتی ہے جس میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اضافی رقم بطور انعام دی جاتی ہے اس جمع شدہ رقم کی سالانہ سٹیٹمنٹ( بمع سالانہ اضافہ جو کہ کبھی 4فیصد اور کبھی 8فیصد اور کبھی اس سے کم و بیش ہوتا رہتا ہے ) محکمہ کی جانب سے جاری کی جاتی ہے۔
گذارش یہ ہے کہ دوران ملازمت اگر ملازم یہ رقم جو کہ حکومت کی طرف سے جبری طور پر کاٹی جاتی ہے اور ہر ملازم کے اکاؤنٹ میں جمع ہوتی رہتی ہے اس کو اپنی کسی ضرورت کے تحت نکلوانا چاہتا ہے تو اس کی واپسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی شرط ہے کہ اگر یہ رقم محکمے کے پاس موجود ہوتی اور محکمہ اس پر جو سالانہ اضافہ لگاتا،تو ملازم وہ سالانہ اضافہ بھی جمع کروائے جو کہ بالآخر ملازم کو ہی ملنا ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ اگر ملازم 150000 روپے قرض لیتا ہے اوراس کی واپسی کی 50اقساط طےکی جاتی ہیں تو ماہانہ 3000 روپے قسط اس کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی ہر قسط پر کچھ رقم جوکہ 300 ماہانہ یا کم و بیش ہوتی ہے وہ بھی کاٹی جاتی ہے ۔
آپ سے التماس ہے کہ( 1)اس اضافی رقم کی شرعی حیثیت کی وضاحت فرمادیں اور اگر یہ درست نہیں ہے تو کس صورت میں درست ہو سکتی ہے اس کی بھی وضاحت فرمادیں ،(2،3)اور کن ناگزیر وجوہات کی بنا پر اس رقم کو نکلوانا کس حد تک جائز ہے ،تحریراً اس کی وضاحت فرمادیں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1)ملازم جب محکمے سے اپنے پراویڈنٹ فنڈ میں سے قرض لیتا ہے تو چونکہ یہ رقم اسی ملازم کے کھاتے سے دی جاتی ہے اس لیے یہ شرعی لحاظ سے قرض نہیں ہے ، اسی طرح یہ رقم جب محکمے کو واپس کی جاتی ہے تو واپسی کی صورت میں جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ بھی ملازم کے کھاتے میں جمع ہوتی ہےلہذ ا یہ اضافہ بھی سود نہیں ہے۔
2،3) کمپنی کی طرف سے اس رقم کی وصولی کی جو شرائط ہیں ان شرائط کے تحت یہ رقم نکلوائی جا سکتی ہے۔
جواہرالفقہ(3/290)میں ہے:
معلوم ہوا ہے کہ محکمہ ملازم کو اس کے فنڈ میں سے بوقت ضرورت کچھ رقم بنام قرض دے دیتا ہے پھر اس کی اگلی تنخواہوں سے قسط وار اتنی ہی رقم اور کچھ مزید رقم جو بنام سود ہوتی ہے کاٹ کر مجموعہ اسی ملازم کے فنڈ میں جمع کر دیتا ہے۔ اس طرح ملازم کو رقم دینے سے اس کے فنڈ میں جو کمی آگئی تھی وہ پوری ہو جاتی ہے اور اختتام ملازمت پر کل رقم اسی کومل جاتی ہے یہ معاملہ اگر چہ سودی قرض کے نام سے کیا جاتا ہے لیکن شرعی نقطۂ نگاہ سے یہ نہ قرض ہے نہ سودی معاملہ۔ قرض تو اس لئے نہیں کہ ملازم کا جو قرض محکمہ کے ذمہ تھا اور جس کے مطالبہ کا اسے حق تھا اس نے اس کا ایک حصہ وصول کیا ہے۔ اور بعد کی تنخواہوں سے جور قم اداء قرض کے نام سے بالاقساط کاٹی جاتی ہے وہ بھی اداء قرض نہیں بلکہ فنڈ میں جو رقم معمول کے مطابق ہر ماہ کٹتی تھی اسی کی طرح یہ بھی ایک کٹوتی ہے اور اسی کی طرح یہ بھی ملازم کا محکمہ کے ذمہ قرض ہے، کیوں کہ یہ کٹوتی بھی اسی کے فنڈ میں جمع ہو کر اختتام ملازمت پر اسی کومل جاتی ہے۔اور جور قم اس کی تنخواہوں سے بنام سود کاٹی جاتی ہے وہ بھی شرعا سود نہیں، اس لئے کہ سود دوسرے کو دیا جاتا ہے اور یہاں یہ رقم ملازم ہی کو واپس مل جاتی ہے۔ لہذا ملازم کو مذکورہ طریقہ سے قرض لینے کی شرعاً گنجائش ہے۔
امداد الفتاویٰ (3/151) میں ہے:
سوال (۱۸۰۷) : قدیم ۳/ ۱۴۲- بعض محکموں میں گورنمنٹ جبراًتنخواہ سے کچھ کاٹ لیتی ہے اور جتنا کاٹتی ہے قریب قریب اتنا ہی اپنے پاس سے بنام سود جمع کرتی رہتی ہے پھر پنشن کے بعد وہ سب روپیہ ملتا ہے، درمیان میں اگر کوئی ضرورت واقع ہو تو تین ماہ کی تنخواہ کی مقدار تک مل سکتا ہے، جس کو ۲۴ ماہ میں باقساط وصول کرلیا جاتا ہے، لیکن سود بھی دینا پڑتا ہے (لیکن وہ سود بھی اسی کے حساب میں لگادیا جاتا ہے، تاکہ روپیہ نکالنے کی وجہ سے جو سود میں کمی واقع ہوگئی تھی وہ پوری ہوجاوے، اور روپیہ نکالنے کی وجہ سے اس رقم میں کوئی فرق واقع نہ ہو جو بعد پنشن کے ملے گی) شرعاً اس طرح روپیہ نکالنا جائزہے یا نہیں ، کیونکہ اس میں سود دینا پڑتا ہے گو وہ اپنے ہی حساب میں جمع ہوجاتا ہے؟
الجواب: اس سوال میں دو جز قابلِ تحقیق ہیں ، ایک اپنی تنخواہ کی رقم پر گورنمنٹ سے سود لینا، سو یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے، اس لئے ایسے شخص کو خصوصیت کے ساتھ گنجائش ہے جس کی تنخواہ جبراً وضع کرلی جاوے دوسرا جز وجو رقم درمیان میں لی جاتی ہے اس پر سود دینا، سو یہ اس مسئلہ مختلف فیہا میں تو داخل نہیں ، کیونکہ وہ مسئلہ اخذ سود کا ہے۔ اور یہ اعطاء سود ہے جس کی حرمت منصوص علیہا ہے لیکن اس میں ایک تاویل ہو سکتی ہے وہ یہ کہ یہ شخص گورنمنٹ سے قرض نہیں لیتا، بلکہ اس کا جو قرض گورنمنٹ کے ذمّہ ہے، اس کے ایک حصہ کا مطالبہ کرتا ہے، جس کا اس کو شرعاً حق ہے، پھر جس وقت اس رقم کو واپس کرتا ہے یہ واپسی ادائے قرض نہیں بلکہ مثل دیگر رقم جمع شدہ کے یہ بھی گورنمنٹ کو قرض ہی دیتا ہے، اور جب واپس کردہ رقم خود اس کی ملک ہے، اور سود ہوتا ہے دوسرے کی مملوک رقم پر، اس لئے یہ جو سود کے نام سے دیا گیا ہے سود نہیں ہے، پس اس کا دینا اعطاء سود بھی نہیں اس لئے اس کو ناجائز نہ کہا جاوے گا، بلکہ اخذ مذکور کی حلت تو مختلف فیہ بھی ہے اور اس اعطاء کی حلت اس تاویل پر متفق علیہ ہوگی، البتہ پھر اس رقم پر جو اخیر میں گورنمنٹ سے سود لیا جاوے گا وہ پھر اخذ مختلف فیہ ہوگا، کما سبق واللہ اعلم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved