• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

مشترکہ مال میں سے تجارت کی تو نفع کامستحق کون ہوگا؟

استفتاء

میرا نام** ہے۔ میرے کچھ مالی معاملات بڑے بھائی کے ساتھ چل رہے ہیں جو کہ رقم کے لین دین کے سلسلے میں ہیں۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ میں سن 2003ء میں چائنہ گیا تھا۔  میرے بڑے بھائی میرے چائنہ جانے کی مخالفت  میں تھے کیونکہ انہیں چائنہ جاکر بھاری نقصان ہوا تھا لیکن چونکہ میری والدہ میرے حق میں تھیں،اس لیے میں چائنہ چلا گیا۔ وہاں جا کر میں نے  کافی آئٹم کی خریداری کی جسکی وجہ سے میرے پاس کچھ رقم کم پڑگئی ،تو میں نے بھائی سے کچھ رقم ادھار منگوائی  انہوں نے تقریباً 7لاکھ روپے مجھے بھجوادیے۔اس وقت میری نیت یہی تھی کہ میں بعد میں واپس کردوں گا ۔میرے ذاتی کاروبار کے علاوہ ہمارا ایک مشترکہ کاروبار بھی تھاجوکہ والد صاحب کا وراثتی کاروبار تھااور سب بھائی اس کاروبار کو وقت دیتے تھے ۔ہم سب کی تمام وراثتی رقم بھائی کے پاس تھی جس میں سے دوسرے بھائی بھی بوقت ضرورت کچھ نہ کچھ لیتے رہتے تھے۔ کاروباری لحاظ سے میرا یہ سفر کامیاب رہا اور میں نے دوبارہ چائنہ جانے کا ارادہ کیا ،بھائی کی نظر میں میرے لائے ہوئے آئٹم میں نفع موجود تھا جوکہ ہاتھوں ہاتھ بک گئے تھےلہذا انہوں نے مجھے کہا کہ اس  ایک آئٹم کو گھر میں ڈال دو (یعنی اس کا نفع گھر میں دیا کرواور  جو ہمارا مشترکہ کاروبار ہے اس آئٹم کو اس کھاتے میں ڈال دو)میں نے اس وقت اس کی ہامی بھر لی اور ابتداء میں تو اس کا حساب علیحدہ رکھ سکا لیکن بعد میں اس کا مکمل حساب نہ رکھ سکا ۔بھائی کے کہنے پر اس وقت تو میں اس مال کو مشترکہ کھاتہ میں ڈالنے پر راضی ہو گیا تھا  لیکن اس میں ہم نے کوئی   شرائط طے نہیں کی تھیں اور نہ ہی یہ طے کیا تھا کہ نفع اور نقصان کا  تناسب کیا ہو گا ؟اسی طرح جو اخراجات میں نے چائنہ جا کر کیے اور کئی کئی دن تک وہاں ٹھہرا رہا ،اس کے بارے میں بھی کچھ طے نہیں ہوا۔

دوسری طرف بھائی جو مشترکہ کھاتے کا مال منگواتے تھے وہ اس میں سے اپنا نفع یا کمیشن لیتے تھے جبکہ میرے معاملےمیں ایسی کسی بات کے لیے تیار نہیں ہیں۔اسی طرح جب دوسرے 3 بھائیوں نے اسی آئٹم کا کاروبار کیا تھا تو ان سے اس قسم کا کوئی تقاضا نہیں کیا گیا،یعنی مجھے جان بوجھ کر الجھایا  اور پھنسایا گیا ہے۔

سن 2016ء میں کئی وجوہات کی بنا پر اس آئٹم کی امپورٹ تقریباً ختم ہوگئی،سن 2017ء میں والدہ کی وفات کے بعد  بھائی نے میری وراثتی رقم جو کہ مبلغ 88 لاکھ بنتی تھی روک لی ،انہوں نے کہا کہ پہلے تم مشترکہ کھاتے کا حساب دو اس کے بعد میں تمہارا  وراثتی حصہ دوں گا ۔میں نے کہا کہ اگر وہ وراثتی رقم ہے تو پھر آپ میری رقم تمام ورثہ میں تقسیم کردیں یا اس رقم کو کسی کاروبار میں لگادیں تاکہ اس میں اضافہ ہو۔ابھی  تک( والدہ کی وفات کے چھ سال بعد بھی) بھائی نے مجھے میری وراثتی رقم نہیں دی اورنہ ہی کسی کاروبار میں لگائی اور میرےوضاحتاً پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ جب بھی حساب ہوگا میں 88لاکھ روپے ہی دوں گا حالانکہ انہوں نے وہ رقم الگ اٹھا کر نہیں رکھی بلکہ اپنے کاروبار میں لگارکھی ہے اور اس سے نفع بھی کمارہے ہیں ۔ وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ تم پہلے 7 لاکھ کا معاملہ  حل کرو پھر اس کا حساب ہو گا۔

ایک مرتبہ ہمارے جاننے والے  ایک بزرگ تشریف لائے تھے انہوں نے معاملہ حل کرنے کے لیے بھائی اور مجھے اکھٹا کیا  اور نوید بھائی سے پوچھا   کہ ہمیں عاصم سے کیا کہنا چاہیے تو بھائی نے کہا  کہ کم از کم پانچ کروڑ لینا چاہیے، میں نے جھگڑا ختم کرنے کی غرض سے ان کو تین کروڑ تک کی آفر بھی کی ۔آفر سے پہلے ان کا کہنا تھا کہ جو کرنا ہے میں نے کرنا ہے آفر سننے کے بعد انہوں نے اپنا ارادہ تبدیل کرلیا اور کہا کہ میں تو تما م بھائیوں ،بہنوں سے مشورہ کرکے فیصلہ کروں گا ۔اس نشست کے بعد میں نے ایک مفتی صاحب سے سارا واقعہ عرض کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کے ذمے اتنی بڑی رقم کیسے بنتی ہے۔حالانکہ   آپ کی نہ تو کوئی شرائط طے ہوئی ہیں اور نہ ہی نفع ونقصان کی تفصیل طے ہوئی ہےاور نہ ہی اس معاملے کے کوئی گواہ ہیں،پھر آپ کس چیز کا نفع دے رہے ہیں۔

اگرچہ بڑے بھائی باتوں میں سے باتیں نکال کر ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن مجھے بتلائیں کہ کیا بغیر حساب کتاب کے سات لاکھ روپے کا اتنا زیادہ نفع بنتا ہے۔یعنی کہ پانچ کروڑ اور کیا مجھ سے زبردستی وصول کرکے بہن بھائیوں میں تقسیم کرنا صحیح ہے ؟ جبکہ بہت سے بہن بھائی اس کو لینے پر تیار نہیں ہیں ۔براہ کرم میری رہنمائی فرمائیں تاکہ میں آخرت کے حساب سے بچ سکوں۔

نوٹ : فریق ثانی سے فون پر بات کی گئی لیکن وہ باضابطہ موقف دینے پر تیار  نہیں ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مشترکہ وراثتی رقم سے جو کاروبار کیا گیا ہے ،خرچے نکال کر  کل مال کا حساب کیا جائے گا اور اس کو تمام بہن بھائیوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔ اور عاصم حفیظ کا بھی اس میں حصہ ہوگا  اگر کوئی بہن/بھائی اپنا حصہ نہ لینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں فریقین اس بات پر متفق ہیں کہ بڑے بھائی نے جو رقم دی ہے وہ مشترکہ تھی۔مشترکہ رقم سے کیے جانے والے کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع کو مشترکہ قرار دیا جاتا ہے۔

نیز جب فریقین کواس مال کے مشترکہ ہونے پر  اتفاق ہے تو موقع پر گواہوں کے ہونے یا نہ ہونے سے  اور اسی طرح نفع کی شرح طے نہ ہونے سے  کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مسائل بہشتی زیور(2/294)میں ہے:

باپ سے ملے ہوئے مشترکہ مال میں تجارت صرف ایک بیٹے نے کی اور اس سے بہت سی مزید جائیداد بنائی تو یہ سب مشترکہ ہی ہو گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved